
تفسیر سورۂ بقرۃ
آیت: 1 - 5
{الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5)}.
(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے الم(1) یہ کتاب ہے، نہیں کوئی شک اس میں،ہدایت ہے متقیوں کے لیے(2) وہ جو ایمان لاتے ہیں ساتھ غیب کے اور قائم کرتے ہیں نماز اور کچھ اس میں سے جوہم نے ان کو دیا، وہ (اللہ کی راہ میں)خرچ کرتے ہیں(3) اوروہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا آپ کی طرف اور جو نازل کیا گیا آپ سے پہلے اور ساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں(4) یہ لوگ اوپر ہدایت کے ہیں اپنے رب کی طرف سے اور یہی فلاح پانے والے ہیں(5)
بسم اللہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
{1} وأما الحروف المقطَّعة في أوائل السورة ؛ فالأسلم فيها السكوت عن التعرُّض لمعناها من غير مستند شرعي، مع الجزم بأن الله تعالى لم ينزلها عبثاً، بل لحكمة لا نعلمها.
[1] بعض سورتوں کی ابتدا میں جو حروف مقطعات آئے ہیں ان کے بارے میں محتاط اور محفوظ مسلک یہ ہے کہ بغیر کسی شرعی دلیل کے ان کے معانی معلوم کرنے کے لیے تعرض نہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے حروف مقطعات کو بے فائدہ نازل نہیں فرمایا بلکہ ان کے نازل کرنے میں کوئی حکمت پنہاں ہے جو ہمارے علم کی دسترس سے باہر ہے۔
{2} وقوله: {ذلك الكتاب}؛ أي: هذا الكتاب العظيم، الذي هو الكتاب على الحقيقة، المشتمل على ما لم تشتمل عليه كتب المتقدمين والمتأخرين من العلم العظيم والحقِّ المبين؛ {لا ريب فيه} فلا ريب فيه ولا شكَّ بوجه من الوجوه، ونفي الرَّيب عنه يستلزم ضده إذ ضد الريب والشك اليقين، فهذا الكتاب مشتمل على علم اليقين المزيل للشك والريب. وهذه قاعدة مفيدة أن النفي المقصود به المدح لا بد أن يكون متضمناً لضده وهو الكمال؛ لأن النفي عدم، والعدم المحض لا مدح فيه، فلما اشتمل على اليقين وكانت الهداية لا تحصل إلا باليقين؛ قال: {هدىً للمتقين}، والهدى ما تحصل به الهداية من الضلالة والشُّبَه، وما به الهداية إلى سلوك الطرق النافعة. وقال: {هدى} وحذف المعمولَ، فلم يقل: هدى للمصلحة الفلانية ولا للشيء الفلاني؛ لإرادة العموم وأنه هدى لجميع مصالح الدارين، فهو مرشدٌ للعباد في المسائل الأصولية والفروعية، ومبين للحق من الباطل والصحيح من الضعيف، ومبين لهم كيف يسلكون الطرق النافعة لهم في دنياهم وأخراهم. وقال في موضع آخر: {هدى للناس} فعمَّم، وفي هذا الموضع وغيره: {هدى للمتقين} لأنه في نفسه هدى لجميع الناس ، فالأشقياء لم يرفعوا به رأساً ولم يقبلوا هدى الله، فقامت عليهم به الحجة، ولم ينتفعوا به لشقائهم. وأما المتقون الذين أتوا بالسبب الأكبر لحصول الهداية وهو التقوى التي حقيقتها: اتخاذ ما يقي سخط الله وعذابه بامتثال أوامره، واجتناب النواهي، فاهتدوا به، وانتفعوا غاية الانتفاع، قال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن تتقوا الله يجعل لكم فرقاناً} فالمتقون هم المنتفعون بالآيات القرآنية والآيات الكونية. ولأن الهداية نوعان: هداية البيان، وهداية التوفيق، فالمتقون حصلت لهم الهدايتان وغيرهم لم تحصل لهم هداية التوفيق، وهداية البيان بدون توفيق للعمل بها ليست هداية حقيقية تامة.
[2] ﴿ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ ﴾ یعنی یہ کتاب عظیم ہی درحقیقت کتاب کہلانے کی مستحق ہے جو بہت بڑے علم اور واضح حق جیسے امور پر مشتمل ہے جو پہلے انبیاء کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ﴿ لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کتابِ عظیم کے بارے میں شک و شبہ کی نفی اس کی ضد کو مستلزم ہے، جبکہ شک و شبہ کی ضد یقین ہے۔ پس یہ کتاب ایسے علم یقینی پر مشتمل ہے جو شکوک و شبہات کو زائل کرنے والا ہے یہ ایک نہایت مفید قاعدہ ہے کہ نفی سے مقصود مدح ہے۔ تو اس کا لازمی نتیجہیہ ہے کہ یہ اس کی ضد کومتضمن ہو اور وہ ہے کمال۔ کیونکہ نفی عدم محض ہوتی ہے اور عدم محض میں کوئی مدح نہیں ہے۔ جب یہ کتابِ عظیمیقین پر مشتمل ہے اور ہدایت صرف یقین ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو فرمایا : ﴿ھُدًی لِّلْمُتِّقِیْنَ﴾ ’’متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘ (اَلْہُدٰی) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہ نمائی کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ﴿ھُدًی﴾ استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کر دیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہ نمائی (ہدایت) ہے۔ کیونکہ اس سے عموم مراد ہے اور اس کے معنییہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی ہے۔ لہٰذا یہ تمام اصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند راستوں پر انھیں کیسے چلنا چاہیے۔ ایک دوسرے مقام پر ﴿ھُدًی لِّلنَّاسِ﴾ (البقرہ: 2؍185) ’’تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے‘‘ فرما کر اس کو عام کر دیا۔ اس مقام پر اوربعض دیگر مقامات پر فرمایا: ﴿ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ کیونکہیہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے، اس لیے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہو گئی ہے کہ انھوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انھوں نے حصول ہدایت کے لیے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے اور وہ ہے تقویٰ اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقویٰ نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی اور اس سے بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّـكُمْ فُ٘رْقَانًا ﴾ (الانفال 8؍29)
’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھارے لیے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔‘‘ پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ (احکام الٰہیہ) اور آیات کونیہ (قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں: (۱) ہدایت بیان (۲) ہدایت توفیق۔ متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت توفیق سےمحروم رہتے ہیں اور ہدایت بیان، توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر، حقیقی اور کامل ہدایت نہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب تقویٰ کے عقائد، اعمال باطنہ اور اعمال ظاہرہ کا بیان فرمایا ہےکیونکہ تقویٰ ان امور کو متضمن ہے۔ فرمایا:
{3} {الذين يؤمنون بالغيب} حقيقة الإيمان هو التصديق التام بما أخبرت به الرسل، المتضمن لانقياد الجوارح، وليس الشأن في الإيمان بالأشياء المشاهدة بالحسِّ، فإنه لا يتميز بها المسلم من الكافر، إنما الشأنُ في الإيمان بالغيب الذي لم نره ولم نشاهده، وإنما نؤمن به لخبر الله وخبر رسوله. فهذا الإيمان الذي يميز به المسلم من الكافر؛ لأنه تصديق مجرد لله ورسله، فالمؤمن يؤمن بكل ما أخبر الله به، أو أخبر به رسوله سواء شاهده أو لم يشاهده، وسواء فهمه وعقله، أو لم يهتدِ إليه عقله وفهمه، بخلاف الزنادقة المكذبين بالأمور الغيبية لأن عقولهم القاصرة المقصرة لم تهتدِ إليها فكذبوا بما لم يحيطوا بعلمه؛ ففسدت عقولهم، ومرجت أحلامهم؛ وزكت عقول المؤمنين المصدقين المهتدين بهدى الله. ويدخل في الإيمان بالغيب الإيمان بجميع ما أخبر الله به من الغيوب الماضية والمستقبلة وأحوال الآخرة وحقائق أوصاف الله وكيفيتها وما أخبرت به الرسل من ذلك، فيؤمنون بصفات الله ووجودها، ويتيقنونها وإن لم يفهموا كيفيتها. ثم قال: {ويقيمون الصلاة} لم يقل: يفعلون الصلاة؛ أو يأتون بالصلاة لأنه لا يكفي فيها مجرد الإتيان بصورتها الظاهرة، فإقامة الصلاة، إقامتها ظاهراً، بإتمام أركانها وواجباتها وشروطها، وإقامتها باطناً ، بإقامة روحها وهو حضور القلب فيها وتدبر ما يقول ويفعله منها، فهذه الصلاة هي التي قال الله فيها: {إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر} وهي التي يترتب عليها الثواب، فلا ثواب للعبد من صلاته إلا ما عقل منها، ويدخل في الصلاة فرائضها ونوافلها. ثم قال: {ومما رزقناهم ينفقون} يدخل فيه النفقات الواجبة؛ كالزكاة، والنفقة على الزوجات والأقارب والمماليك ونحو ذلك، والنفقات المستحبة بجميع طرق الخير، ولم يذكر المنفَق عليه لكثرة أسبابه وتنوع أهله، ولأن النفقة من حيث هي قربة إلى الله، وأتى «بِمِن» الدالة على التبعيض؛ لينبههم أنه لم يرد منهم إلا جزءاً يسيراً من أموالهم غير ضار لهم، ولا مثقل بل ينتفعون هم بإنفاقه، وينتفع به إخوانهم، وفي قوله: {رزقناهم} إشارة إلى أن هذه الأموال التي بين أيديكم ليست حاصلة بقوتكم وملككم، وإنما هي رزق الله الذي خوّلكم وأنعم به عليكم، فكما أنعم عليكم وفضلكم على كثير من عباده فاشكروه بإخراج بعض ما أنعم به عليكم، وواسوا إخوانكم المعدمين. وكثيراً ما يجمع تعالى بين الصلاة والزكاة في القرآن؛ لأن الصلاة متضمنة للإخلاص للمعبود، والزكاة والنفقة متضمنة للإحسان على عبيده؛ فعنوان سعادة العبد إخلاصه للمعبود وسعيه في نفع الخلق، كما أن عنوان شقاوة العبد عدم هذين الأمرين منه فلا إخلاص ولا إحسان.
[3] ﴿الَّذِیْنَیُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ ’’وہ لوگ جو غیب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں‘‘ حقیقت ایمان ان امور کی کامل تصدیق کا نام ہے جن کی خبر انبیاء و رسل نے دی ہے یہ تصدیق جوارح کی اطاعت کومتضمن ہے۔ اشیاء کے حسی مشاہدہ سے ایمان کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ اس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ ایمان کا تعلق تو اس غیب سے ہے جسے ہم دیکھ سکتے ہیں نہ اس کا مشاہدہ ہی کر سکتے ہیں۔محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خبر دینے سے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جاتا ہے کیونکہیہ ایمان مجرد اللہ اور اس کے انبیاء و مرسلین کی تصدیق ہے۔ پس مومن وہ ہے جو ہر اس چیز پر ایمان لاتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے خبر دی ہے خواہ اس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا ہو یا نہ کیا ہو خواہ اس نے اسے سمجھا ہو یا اس کی عقل و فہم کی رسائی وہاں تک نہ ہو سکی ہو۔ زنا دقہ اور امور غیب کی تکذیب کرنے والوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ان کی عقل ان امور کو سمجھنے سے قاصر رہی اور وہ ان امور تک نہ پہنچ سکے بنا بریں انھوں نے ان امور کو جھٹلا دیا جن کا احاطہ ان کا علم نہ کر سکا۔ پس ان کی عقل فاسد ہوگئی اور ان کا فہم خرابی کا شکار ہوگیا۔ اور امور غیب کی تصدیق کرنے والے اہل ایمان کی عقل اور بڑھ گئی جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو راہ نما بنا لیا۔ ایمان بالغیب سے مراد ان تمام امور غیب پر ایمان لانا ہے جن کا تعلق ماضی،مستقبل، احوال آخرت، اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کی کیفیات سے ہے اور جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و مرسلین نے دی ہے۔ پس اہل ایمان نہایتیقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی صفات اور ان کے وجود پر ایمان رکھتے ہیں اگرچہ وہ ان کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہیں۔ ﴿وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ﴾ ’’وہ نماز کو قائم کرتے ہیں۔‘‘ یہ نہیں کہا کہ وہ نماز کا فعل بجا لاتے ہیںیا وہ نماز کو ادا کرتے ہیں کیونکہ ظاہری صورت و ہیئت کے ساتھ نماز پڑھنا ہی کافی نہیں بلکہ اقامت صلاۃیہ ہے کہ نماز کو جہاں ظاہری شکل و صورت، اس کے تمام ارکان کی کامل ادائیگی اور اس کی شرائط و واجبات کے ساتھ قائم کیا جائے، وہاں اس کو باطنی اعتبار سے اس کی روح کے ساتھ، یعنی اس کے اندر حضور قلب اور اس قول و فعل میں کامل تدبر کے ساتھ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ یہی وہ نماز ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾ (العنکبوت 29؍45) ’’بے شک نماز فحش کاموں اور برائیوں سے روکتی ہے۔‘‘ اور یہی وہ نماز ہے جس پر ثواب مرتب ہوتا ہے۔ پس بندۂ مومن کو اس کی صرف اسی نماز کا ثواب ملتا ہے جسے وہ سمجھ کر ادا کرتا ہے اور نماز میں فرائض اور نوافل سب داخل ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ ’’اور ان میں سے جو ہم نے ان کو دیا، وہ خرچ کرتے ہیں‘‘ اس میں تمام نفقات واجبہ، مثلاً زکاۃ ، بیویوں کا نان و نفقہ، قریبی رشتہ داروں اور اپنے غلاموں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے اور بھلائی کے تمام کاموں میں نفقات مستحبہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جن لوگوں پر خرچ کیا جانا چاہیے ان کا یہاں ذکر نہیں کیا کیونکہ اس کے اسباب اور ایسے لوگوں کی اقسام بہت زیادہ ہیں۔ خرچ جہاں کہیں بھی کیا جائے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہوگا۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ﴾ میں (من) تبعیض کے لیے ہے اور یہ اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ہے کہ ان کے رزق اور اموال میں سے تھوڑا سا حصہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا مقصود ہے جس کا خرچ کرنا ان کے لیے نقصان دہ اور گراں نہ ہو بلکہ اس انفاق سے خود انھیں اور ان کے بھائیوں کو فائدہ پہنچے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿رَزَقْنَاھُمْ﴾ میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ مال و متاع جو تمھارے قبضے میں ہے تمھیں تمھاری اپنی قوت اور ملکیت کے بل بوتے پر حاصل نہیں ہوا بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا رزق ہے اسی نے تم کو عطا کیا ہے اور اسی نے تم کو اس نعمت سے نوازا ہے۔ پس جس طرح اس نے تمھیں اور بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اس نےتمھیں اپنے بہت سے بندوں پر فضیلت عطا کی، تو تم بھی اللہ کا شکر ادا کرو اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ اپنے مفلس اور نادار بھائیوں پر خرچ کر کے ان کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اکثر مقامات پر نماز اور زکاۃ کو اکٹھا ذکر کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاصکو متضمن ہے اور زکاۃ اور انفاق فی سبیل اللہ اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ پس بندۂ مومن کی سعادت کا عنوان یہ ہے کہ اس کا اخلاص معبود کے لیے ہو اور اس کی تمام تر کاوش مخلوق کو نفع پہنچانے کے لیے ہو، جیسے بندے کی بدبختی اور شقاوت کا عنوان یہ ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں سے محروم ہو اس کے پاس اخلاص ہو نہ حسن سلوک۔
{4} ثم قال: {والذين يؤمنون بما أنزل إليك} وهو: القرآن والسنة، قال تعالى: {وأنزل الله عليك الكتاب والحكمة} فالمتقون يؤمنون بجميع ما جاء به الرسول ولا يفرقون بين بعض ما أنزل إليه، فيؤمنون ببعضه، ولا يؤمنون ببعضه، إما بجحده، أو تأويله على غير مراد الله ورسوله، كما يفعل ذلك من يفعله من المبتدعة الذين يؤولون النصوص الدالة على خلاف قولهم بما حاصله عدم التصديق بمعناها وإن صدقوا بلفظها، فلم يؤمنوا بها إيماناً حقيقيًّا. وقوله: {وما أنزل من قبلك} يشمل الإيمان بجميع الكتب السابقة، ويتضمن الإيمانُ بالكتب الإيمان بالرسل وبما اشتملت عليه خصوصاً التوراة والإنجيل والزبور، وهذه خاصية المؤمنين يؤمنون بالكتب السماوية كلها وبجميع الرسل فلا يفرقون بين أحد منهم. ثم قال: {وبالآخرة هم يوقنون} والآخرة: اسم لما يكون بعد الموت، وخصه بالذكر بعد العموم؛ لأن الإيمان باليوم الآخر أحد أركان الإيمان؛ ولأنه أعظم باعث على الرغبة والرهبة والعمل، واليقين هو: العلم التام، الذي ليس فيه أدنى شك، الموجب للعمل.
[4] ﴿وَالَّذِیْنَیُوْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْکَ﴾ ’’اور وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اتارا گیا‘‘ اس سے مراد قرآن اور سنت ہے اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ﴾ (النساء4؍113) ’’اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت (یعنی سنت) نازل کی۔‘‘ پس اصحاب تقویٰ ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں جنھیں رسول اللہeلے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی میں تفریق نہیں کرتے کہ اس کے کسی حصے پر تو ایمان لے آئیں اور کسی حصے پر اپنے انکاریا ایسی تاویل کے ذریعے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد نہ ہو، ایمان نہ لائیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا وتیرہ ہے جو قرآن و سنت کی ان نصوص کی تاویل کرتے ہیں جو ان کے قول کے خلاف ہوتی ہیں جو کہ درحقیقت ان نصوص کے معانی کی تصدیق نہیں ہے وہ اگرچہ ان نصوص کے ظاہری الفاظ کی تصدیق کرتے ہیں مگر ان پر حقیقی طور پر ایمان نہیں لاتے۔ ﴿وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ﴾ ’’اور اس پر جو آپ سے پہلے اتارا گیا‘‘یہ آیت کریمہ گزشتہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے اور گزشتہ کتابوں پر ایمان لانا اس بات کو متضمن ہے کہ انبیائے سابقین پر ایمان لایا جائے۔ نیز ان حقائق پر ایمان لایا جائے جن پر یہ الہامی کتابیں خاص طور پر تورات، انجیل اور زبور مشتمل ہیں۔ یہ اہل ایمان کی خصوصیت ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء و مرسلین پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کرتے۔ ﴿وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ ’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ آخرت ان تمام امور کا نام ہے جو مرنے کے بعد انسان کو پیش آئیں گے۔ عمومی ایمان کے ذکر کے بعد آخرت پر ایمان کو خاص طور پر ذکر کیا ہے، کیونکہ آخرت پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے، نیز آخرت پر ایمان رغبت، خوف اور اعمال صالحہ کا باعث ہے۔ اور (یقین) ایسے علم کامل کو کہتے ہیں جس میں ادنیٰ سا بھی شک نہ ہو۔ یقین عمل کا موجب ہوتا ہے۔
{5} {أولئك}؛ أي: الموصوفون بتلك الصفات الحميدة {على هدى من ربهم}؛ أي: على هدى عظيم؛ لأن التنكير للتعظيم، وأيُّ هداية أعظم من تلك الصفات المذكورة المتضمنة للعقيدة الصحيحة والأعمال المستقيمة؟! وهل الهداية في الحقيقة إلا هدايتهم وما سواها مما خالفها فهي ضلالة؟! وأتى بعلى في هذا الموضع الدالة على الاستعلاء، وفي الضلالة يأتي بفي كما في قوله: {وإنا أو إياكم لعلى هدى أو في ضلال مبين}؛ لأن صاحب الهدى مستعلٍ بالهدى مرتفع به، وصاحب الضلال منغمس فيه محتقر. ثم قال: {وأولئك هم المفلحون} والفلاح هو الفوز بالمطلوب والنجاة من المرهوب، حصر الفلاح فيهم؛ لأنه لا سبيل إلى الفلاح إلا بسلوك سبيلهم، وما عدا تلك السبيل فهي سبل الشقاء والهلاك والخسار التي تفضي بسالكها إلى الهلاك؛ فلهذا لما ذكر صفات المؤمنين حقًّا ذكر صفات الكفار المظهرين لكفرهم المعاندين للرسول فقال:
[5] ﴿اُوْلٰٓئِکَ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات حمیدہ سے متصف ہیں ﴿عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ﴾ اپنے رب کی طرف سے عظیم ہدایت پر ہیں۔ کیونکہیہاں ﴿ھُدًی﴾ کا نکرہ استعمال ہونا اس کی تعظیم کی بنا پر ہے اور کون سی ہدایت ایسی ہے جو صفات مذکورہ سے عظیم تر ہو جو صحیح عقیدے اور درست اعمال کو متضمن ہیں؟ ہدایت تو درحقیقت وہی ہے جس پر اہل ایمان عمل پیرا ہیں اس کے علاوہ دیگر تمام مخالف راستے گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس مقام پر (عَلٰی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جو بلندی اور غلبے پر دلالت کرتا ہے اور ’’ضلالت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے (فِی) کا صلہ استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے۔ ﴿وَاِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ھُدًی اَوْ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ﴾ (سبا:34؍24) ’’ہم یا تم یا تو سیدھے راستے پر ہیںیا صریح گمراہی میں‘‘ کیونکہ صاحب ہدایت بر بنائے ہدایت بلند اور غالب ہوتا ہے اور صاحب ضلالت اپنی گمراہی میں ڈوبا ہوا اور نہایت حقیر ہے۔ ﴿وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ’’یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے‘‘ (فلاح) اپنے مطلوب کے حصول میں کامیابی اور خوف سے نجات کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح کو اہل ایمان میں محصور اور محدود کر دیا کیونکہ اہل ایمان کے راستے پر گامزن ہوئے بغیر فلاح کی منزل کو نہیں پایا جا سکتا۔ اس راستے کے سوا دیگر راستے بدبختی، ہلاکت اور خسارے کے راستے ہیں جو اپنے چلنے والوں کو ہلاکت کے گڑھوں میں جاگراتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے جہاں اہل ایمان کی حقیقی صفات بیان فرمائی ہیں وہاں رسول اللہeسے عناد رکھنے والے کھلے کافروں کی صفات کا ذکر بھی کر دیا۔
آیت: 6 - 7
{إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7)}.
بلاشبہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، برابر ہے ان پر، آیا آپ ڈرائیں انھیںیا نہ ڈرائیں انھیں، نہیں ایمان لائیں گے وہ(6) مہر لگا دی ہے اللہ نے اوپر ان کے دلوں کے اور اوپر ان کے کانوں کےاور اُوپر ان کی آنکھوں کے پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب ہے بہت بڑا(7)
{6} يخبر تعالى {إن الذين كفروا}، أي: اتصفوا بالكفر وانصبغوا به، وصار وصفاً لهم لازماً لا يردعهم عنه رادع، ولا ينجع فيهم وعظ أنهم مستمرون على كفرهم، فسواء عليهم {أأنذرتهم أم لم تنذرهم لا يؤمنون}. وحقيقة الكفر هو الجحود لما جاء به الرسول أو جحد بعضه، فهؤلاء الكفار لا تفيدهم الدعوة إلا إقامة الحجة عليهم، وكأن في هذا قطعاً لطمع الرسول - صلى الله عليه وسلم - في إيمانهم وأنك لا تأس عليهم، ولا تذهب نفسك عليهم حسرات.
[6] اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ جنھوں نے کفر کا رویہ اختیار کیایعنی کفر کی صفات سے متصف ہوئے اور کفر کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے کہ کفر ان کا وصف لازم بن گیا جس سے کوئی ہٹانے والا ان کو ہٹا نہیں سکتا اور نہ کوئی نصیحت ان پر کارگر ہو سکتی ہے۔ وہ اپنے کفر میںراسخ اور اس پر جمے ہوئے ہیں لہٰذا ان کے لیے برابر ہے تم انھیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ حقیقت میں کفر اس تعلیمیا اس کے بعض حصے کا انکار کرنے کا نام ہے جسے رسول اللہeلے کر آئے۔ پس ان کفار کو کوئی دعوت فائدہ نہیں دیتی البتہ اس دعوت سے ان پر حجت ضرور قائم ہو جاتی ہے۔ اس آیت میں گویا رسول اللہeکی اس امید کو ختم کر دیا گیا جو آپ کو ان کے ایمان لانے کی تھی اور فرما دیا گیا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اور ان کفار کے ایمان نہ لانے پر افسوس اور حسرت کے مارے آپ ہلکان نہ ہوں۔
پھر ان موانع کا ذکر کیا ہے جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہیں۔
{7} {ختم الله على قلوبهم وعلى سمعهم}؛ أي: طبع عليها بطابع لا يدخلها الإيمان ولا ينفذ فيها؛ فلا يعون ما ينفعهم ولا يسمعون ما يفيدهم {وعلى أبصارهم غشاوة}؛ أي: غشاءً وغطاءً وأكنَّة تمنعها عن النظر الذي ينفعهم، وهذه طرق العلم والخير قد سدت عليهم، فلا مطمع فيهم ولا خير يرجى عندهم، وإنما منعوا ذلك وسدت عنهم أبواب الإيمان بسبب كفرهم وجحودهم ومعاندتهم بعد ما تبين لهم الحق، كما قال تعالى: {ونقلب أفئدتهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أول مرة} وهذا عقاب عاجل، ثم ذكر العقاب الآجل فقال: {ولهم عذابٌ عظيم} وهو عذاب النار، وسخط الجبار المستمر الدائم.
[7] ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کر سکتے ہیں، نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔ ﴿ وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ﴾ یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انھیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کر دیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جا سکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لیے بند کر دیے گئے کہ انھوں نے حق کے عیاں ہو جانے کے بعد بھی کفر، انکار اور عناد کا رویہ اختیار کیے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام 6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے) جس طرح وہ پہلی بار ایمان نہ لائے۔‘‘ یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا: ﴿وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔
آیت: 8 - 10
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (8) يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (9) فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ (10)}.
اور بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں، ایمان لائے ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر، حالانکہ نہیں ہیں وہ ایمان لانے والے(8) وہ دھوکا دیتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے،اور نہیں دھوکا دیتے وہ مگر اپنے آپ ہی کو اور وہ نہیں شعور رکھتے(9) ان کے دلوں میں بیماری ہے،سو بڑھا دیا ان کو اللہ نے بیماری میں، اور ان کے لیے عذاب ہے بڑا دردناک، بہ سبب اس کے (کہ )تھے وہ جھوٹ بولتے(10)
{8 ـ 9} واعلم أن النفاق هو إظهار الخير وإبطان الشر، ويدخل في هذا التعريف النفاق الاعتقادي والنفاق العملي؛ فالنفاق العملي؛ كالذي ذكر النبي - صلى الله عليه وسلم - في قوله: «آية المنافق ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان»؛ وفي رواية «وإذا خاصم فجر». وأما النفاق الاعتقادي المخرج عن دائرة الإسلام؛ فهو الذي وصف الله به المنافقين في هذه السورة وغيرها، ولم يكن النفاق موجوداً قبل هجرة النبي - صلى الله عليه وسلم - من مكة إلى المدينة ولا بعد الهجرة، حتى كانت وقعة بدر وأظهر الله المؤمنين وأعزهم؛ فذل من في المدينة ممن لم يسلم، فأظهر الإسلامَ بعضُهم خوفاً ومخادعة؛ ولتحقن دماؤهم وتسلم أموالهم، فكانوا بين أظهر المسلمين في الظاهر أنهم منهم، وفي الحقيقة ليسوا منهم. فمن لطف الله بالمؤمنين أن جَلا أحوالهم، ووصفهم بأوصاف يتميزون بها لئلا يغتر بهم المؤمنون، ولينقمعوا أيضاً عن كثير من فجورهم، قال تعالى: {يحذر المنافقون أن تنزل عليهم سورة تنبئهم بما في قلوبهم}؛ فوصفهم الله بأصل النفاق فقال: {وَمِنَ النَّاسِ مَن يقُولُ آمنَّا باللَّهِ وبِاليومِ الآخِرِ وَمَا هُم بمؤمنين}؛ فإنهم يقولون بألسنتهم ما ليس في قلوبهم فأكذبهم الله بقوله: {وما هُم بمؤمنين}؛ لأن الإيمان الحقيقي ما تواطأ عليه القلب واللسان، وإنما هذا مخادعة لله ولعباده المؤمنين، والمخادعة: أن يظهر المخادع لمن يخادعه شيئاً، ويبطن خلافه لكي يتمكن من مقصوده ممن يخادع، فهؤلاء المنافقون سلكوا مع الله وعباده هذا المسلك؛ فعاد خداعهم على أنفسهم، وهذا من العجائب ؛ لأن المخادع إما أن ينتج خداعه ويحصل له مقصوده أو يسلم لا له ولا عليه، وهؤلاء عاد خداعهم على أنفسهم ، فكأنهم يعملون ما يعملون من المكر لإهلاك أنفسهم وإضرارها وكيدها؛ لأن الله لا يتضرر بخداعهم شيئاً، وعباده المؤمنين لا يضرهم كيدهم شيئاً، فلا يضر المؤمنين أن أظهر المنافقون الإيمان؛ فسلمت بذلك أموالهم، وحقنت دماؤهم، وصار كيدهم في نحورهم، وحصل لهم بذلك الخزي والفضيحة في الدنيا، والحزن المستمر بسبب ما يحصل للمؤمنين من القوة والنصرة، ثم في الآخرة لهم العذاب الأليم الموجع المفجع بسبب كذبهم وكفرهم وفجورهم، والحال أنهم من جهلهم وحماقتهم لا يشعرون بذلك.
[9 - 8] معلوم ہونا چاہیے کہ نفاق بھلائی کا اظہار کرنے اور باطن میں برائی چھپانے کا نام ہے۔ اس تعریف میں نفاق اعتقادی اور نفاق عملی دونوں شامل ہیں۔ جیسے نبیeنے بھی اپنے اس فرمان میں اس کا ذکر فرمایا: ’آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ، اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا ائْتُمِنَ خَانَ‘’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔‘‘(صحیح البخاری، الإيمان، باب علامات المنافق، حديث:33) ایک اور روایت میں آتا ہے ’وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ‘’’جب جھگڑا کرے تو گالی گلوچ کرے۔‘‘ (حوالہ سابق،حديث:34) رہا نفاق اعتقادی جو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے والا ہے۔ تو یہ وہ نفاق ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کو اس سورت میں اور بعض دیگر سورتوں میں متصف فرمایا۔ رسول اللہeکی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد تک نفاق کا وجود نہ تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں اہل ایمان کو غلبے اور فتح و نصرت سے سرفراز فرمایا۔ پس مدینہ میں رہنے والے وہ لوگ جنھوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، ذلیل ٹھہرے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے خوف کی وجہ سے دھوکے کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا تاکہ ان کا جان و مال محفوظ رہے۔ پس وہ مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے درآنحالیکہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم تھا کہ اس نے ان منافقین کے احوال و اوصاف ان کے سامنے واضح کر دیے جن کی بنا پر وہ پہچان لیے جاتے تھے تاکہ اہل ایمان ان سے دھوکہ نہ کھا سکیں، نیز منافقین اپنے بہت سے فسق و فجور سے باز آ جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿یَحْذَرُ الْمُنَافِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْھِمْ سُوْرَۃٌ تُنَبِّئُھُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ﴾ (التوبہ9؍64) ’’منافق ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں کوئی ایسی سورت نہ نازل کر دی جائے جو ان کے دل کی باتوں سے مسلمانوں کو آگاہ کر دے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل نفاق کو بیان کیا اور فرمایا : ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ ﴾ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں‘‘ کیونکہیہ لوگ اپنی زبان سے ایسی بات کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ﴾ کہہ کر انھیں جھوٹا قرار دیا، اس لیے کہ حقیقی ایمان وہ ہے جس پر دل اور زبان متفق ہوں، ان منافقین کا یہ اظہارِ ایمان تو اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کو دھوکہ دینا ہے۔ (اَلْمُخَادَعَۃُ) ’’دھوکہ‘‘ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والا شخص جس کو دھوکہ دیتا ہے اس کے سامنے زبان سے جو کچھ ظاہر کرتا ہے اس کے خلاف اپنے دل میں چھپاتا ہے تاکہ اس شخص سے اپنا مقصد حاصل کر سکے جسے وہ دھوکہ دے رہا ہے۔ پس منافقین نے اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان کے ساتھ اسی رویہ کو اختیار کیا تو یہ دھوکہ انھی کی طرف لوٹ آیا (یعنی اس کا سارا وبال انھی پر پڑا) اور یہ عجائبات میں سے ہے، کیونکہ دھوکہ دینے والے کا دھوکہ یا تو نتیجہ خیز ہوتا ہے اور اسے اپنا مقصد حاصل ہو جاتا ہے یا وہ محفوظ رہتا ہے اور اس کا نتیجہ نہ تو اس کے حق میں ہوتا ہے اور نہ اس کے خلاف۔ مگر ان منافقین کا دھوکہ خود ان کی طرف پلٹ گیا۔ گویا کہ وہ مکر اور چالبازیاں جو دوسروں کو نقصان پہنچانے کے لیے کر رہے تھے وہ درحقیقت اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے لیے کر رہے تھے، اس لیے کہ ان کے دھوکے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے نہ اہل ایمان کو۔ پس منافقین کے ایمان ظاہر کرنے سے اہل ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، اظہار ایمان سے انھوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیا اور ان کا مکر و فریب ان کے سینوں میں رہ گیا اس نفاق کی وجہ سے دنیا میں ان کو رسوائی ملی اور اہل ایمان کو قوت اور فتح و نصرت سے سرفراز ہونے کی وجہ سے وہ حزن و غم کی دائمی آگ میں سلگنے لگے۔ پھر آخرت میں ان کے جھوٹ اور ان کے کفر و فجور کے سبب سے ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے اس کے شعور سے بے بہرہ ہیں۔
{10} وقوله: {في قلوبهم مرض}؛ المراد بالمرض هنا: مرض الشك، والشبهات، والنفاق، وذلك أن القلب يعرض له مرضان يخرجانه عن صحته واعتداله: مرض الشبهات الباطلة، ومرض الشهوات المُرْدِيَة. فالكفر والنفاق والشكوك والبِدَع كلها من مرض الشبهات، والزِنا ومحبة الفواحش والمعاصي وفعلها من مرض الشهوات؛ كما قال تعالى: {فيطمع الذي في قلبه مرض}؛ وهو شهوة الزنا، والمعافى من عوفي من هذين المرضين، فحصل له اليقين والإيمان والصبر عن كل معصية، فرفل في أثواب العافية. وفي قوله عن المنافقين: {في قلوبهم مرض فزادهم الله مرضاً}؛ بيان لحكمته تعالى في تقدير المعاصي، على العاصين وأنه بسبب ذنوبهم السابقة؛ يبتليهم بالمعاصي اللاحقة الموجبة لعقوباتها، كما قال تعالى: {ونقلب أفئدتهم وأبصارهم كما لم يؤمنوا به أول مرة}، وقال تعالى: {فلما زاغوا أزاغ الله قلوبهم}، وقال تعالى: {وأما الذين في قلوبهم مرضٌ فزادتهم رجساً إلى رجسهم} فعقوبة المعصية المعصية بعدها، كما أن من ثواب الحسنة الحسنة بعدها؛ قال تعالى: {ويزيد الله الذين اهتدوا هدى}.
[10] اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ﴾ ’’ان کے دلوں میں روگ ہے‘‘ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کا مرض ہے۔ قلب کو دو قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں جو اسے صحت و اعتدال سے محروم کر دیتے ہیں: ۱۔ شبہات باطلہ کا مرض ۲ ۔ ہلاکت میں ڈالنے والی شہوات کا مرض۔ پس کفر و نفاق اور شکوک و بدعات یہ سب شبہات کے امراض ہیں۔ زنا، فواحش و معاصی سے محبت اور ان کا ارتکاب یہ سب شہوات کے امراض ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَ٘یَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ﴾ (الاحزاب33؍32) ’’پس وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے، وہ طمع کرے گا‘‘ اس مرض سے مراد شہوت زنا ہے۔ برائی سے صرف وہی بچے گا جو ان دو امراض سے محفوظ ہو گا۔ پس اس کو ایمان و یقین حاصل ہوتا ہے اور معاصی کے مقابلے میں صبر کی ڈھال عطا کر دی جاتی ہے اور وہ عافیت کا لباس زیب تن کر کے ناز و ادا سے چلتا ہے۔ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فِیْ قُ٘لُ٘وْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا﴾ میں گناہ گاروں کے گناہوں کی تقدیر کی بابت اللہ تعالیٰ کی حکمت کا بیان ہے کہ یہ روگ نفاق ان کے سابقہ گناہوں کا نتیجہ ہے، نیز اللہ تعالیٰ انھیں اس کے سبب سے مزید گناہوں میں مبتلا کر دیتا ہے جو ان کے لیے مزید سزا کے موجب بنتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَنُقَلِّبُ اَفْــِٕدَتَهُمْ وَاَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِهٖۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام 6؍110) ’’اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (وہ اس قرآن پر اسی طرح ایمان نہ لائیں گے) جس طرح وہ پہلی مرتبہ ایمان نہ لائے تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ﴾ (الصف 61؍5) ’’جب وہ ٹیٹرھے ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیٹرھا کر دیا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِھِمْ﴾ (التوبہ : 9؍125) ’’اور رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کر دیا۔‘‘ پس گناہ کی سزا گناہ کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جانا ہے۔ جیسے نیکی کی جزا یہہے کہ اس کے بعد اسے مزید نیکی کی توفیق عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَیَزِیْدُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا ھُدًی﴾ (مریم : 19؍76) ’’اور وہ لوگ جو ہدایتیاب ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے۔‘‘
آیت: 11 - 12
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (11) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (12)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے نہ فساد کرو زمین میں، (تو) کہتے ہییقیناًہم تو اصلاح کرنے والے ہی ہیں(11) خبردار! بلاشبہ وہی فساد کرنے والے ہیں لیکن وہ نہیں شعور رکھتے (12)
{11} أي: إذا نُهِيَ هؤلاء المنافقون عن الإفساد في الأرض، وهو العمل بالكفر والمعاصي، ومنه إظهار سرائر المؤمنين لعدوهم وموالاتهم للكافرين: {قالوا إنما نحن مصلحون}؛ فجمعوا بين العمل بالفساد في الأرض وإظهار أنه ليس بإفساد، بل هو إصلاح قلباً للحقائق، وجمعاً بين فعل الباطل واعتقاده حقًّا، وهؤلاء أعظم جناية ممن يعمل بالمعاصي مع اعتقاد تحريمها ، فهذا أقرب للسلامة وأرجى لرجوعه، ولما كان في قولهم: {إنما نحن مصلحون}؛ حصر للإصلاح في جانبهم ـ وفي ضمنه أن المؤمنين ليسوا من أهل الإصلاح ـ قلب الله عليهم دعواهم بقوله:
[11] جب ان منافقوں کو زمین میں فساد پھیلانے سے روکا جاتا ہے اور فساد سے مراد اعمال کفر اور معاصی ہیں۔ نیز دشمن کے پاس اہل ایمان کے راز پہنچانا اور کفار کے ساتھ دوستی رکھنا ہے۔ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں۔ پس انھوں نے دو باتوں کو اکٹھا کر دیا۔ (۱) فساد فی الارض کا ارتکاب۔ (۲) اس بات کا اظہار کہ یہ فساد پھیلانا نہیں، بلکہ اصلاح ہے۔ یوں گویا ایک تو انھوں نے حقائق کو بدل دیا (فساد کا نام اصلاح رکھا) دوسرے، فعل باطل اور اس کے حق ہونے کے اعتقاد کو جمع کر دیا۔ یہ لوگ ان لوگوں سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جو گناہ کو حرام سمجھتے ہوئے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ لوگ سلامتی کے زیادہ قریب ہیں اور ان کی بابت ارتکاب گناہ سے باز آ جانے کی زیادہ امید ہے۔ چونکہ ان کے قول ﴿اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ﴾ ’’بیشک ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں‘‘ میں اصلاح ان کی جانب محدود و محصور ہے جس سے ضمناً یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان اصلاح والے نہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کا دعویٰ انھی پر پلٹ دیا۔
{12} {ألا إنهم هم المفسدون} فإنه لا أعظم إفساداً ممن كفر بآيات الله، وصد عن سبيل الله، وخادع الله وأولياءه، ووالى المحاربين لله ورسوله، وزعم مع هذا أن هذا إصلاح، فهل بعد هذا الفساد فساد؟! ولكن لا يعلمون علماً ينفعهم وإن كانوا قد علموا بذلك علماً تقوم به عليهم حجة الله، وإنما كان العمل [بالمعاصي] في الأرض إفساداً؛ لأنه سبب لفساد ما على وجه الأرض من الحبوب والثمار والأشجار والنبات لما يحصل فيها من الآفات التي سببها المعاصي، ولأن الإصلاح في الأرض أن تُعمَر بطاعة الله والإيمان به، لهذا خلق الله الخلق وأسكنهم [في] الأرض وأدرَّ عليهم الأرزاق؛ ليستعينوا بها على طاعته وعبادته، فإذا عُمِل فيها بضده كان سعياً فيها بالفساد وإخراباً لها عمَّا خُلِقت له.
[12] فرمایا: ﴿اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ﴾ ’’خبردار، بے شک یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات سے کفر، اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکنے، اللہ تعالیٰ اور اس کے اولیاء کو دھوکہ دینے اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے ساتھ دوستی رکھنے سے بڑا کوئی فساد نہیں۔ اس کے باوجود وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ وہ اصلاح کر رہے ہیں۔ کیا اس فساد کے بعد بھی کوئی اور فساد رہ جاتا ہے؟ لیکن وہ اپنے فساد کے بارے میں ایسا علم نہیں رکھتے جو انھیں فائدہ پہنچا سکے اگرچہ وہ اس کے بارے میں ایسا علم ضرور رکھتے ہیں جو ان کے خلاف حجت قائم کرے گا اور صرف ان کے اعمال ہی زمین کے اندر فساد کا باعث تھے کیونکہ برے اعمال اور گناہوں کے سبب سے روئے زمین پر آفتیں اور مصائب نازل ہوتے ہیں جو غلے، پھلوں، درختوں اور نباتات کو بھی خراب کر دیتے ہیں۔ زمین کے اندر اصلاحیہ ہے کہ اسے ایمان اور اطاعت الٰہی سے معمور رکھا جائے۔ اسی اطاعت و ایمان کے لیے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کر کے اس کو زمین پر آباد کیا اور ان پر رزق کے دروازے کھول دیے تاکہ وہ اس رزق کی مدد سے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی اطاعت کرے۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کے خلاف عمل کیا جائے گا تو یہ عمل گویا زمین میں فساد برپا کرنا اور اس کو اجاڑنا ہوگا۔
آیت: 13
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ (13)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے، ایمان لاؤ،جیسے ایمان لائے لوگ تو کہتے ہیں:کیا ایمان لائیں ہم جیسے ایمان لائے بے وقوف؟ خبردار! بلاشبہ وہی ہیں بے وقوف لیکن وہ نہیں جانتے(13)
{13} أي: إذا قيل للمنافقين آمنوا كما آمن الناس، أي: كإيمان الصحابة رضي الله عنهم وهو: الإيمان بالقلب واللسان، قالوا بزعمهم الباطل: أنؤمن كما آمن السفهاء؟ يعنون ـ قبحهم الله ـ الصحابة رضي الله عنهم؛ لزعمهم أن سفههم أوجب لهم الإيمان، وترك الأوطان، ومعاداة الكفار، والعقل عندهم يقتضي ضد ذلك، فنسبوهم إلى السَفَه، وفي ضمن ذلك أنهم هم العقلاء أرباب الحجى والنُهى؛ فرد الله ذلك عليهم وأخبر أنهم هم السفهاء على الحقيقة؛ لأن حقيقة السفه جهل الإنسان بمصالح نفسه، وسعيه فيما يضرها، وهذه الصفة منطبقة عليهم، [وصادقة عليهم] كما أن العقل والحجى معرفة الإنسان بمصالح نفسه والسعي فيما ينفعه وفي دفع ما يضره، وهذه الصفة منطبقة على الصحابة والمؤمنين؛ فالعبرة بالأوصاف والبرهان، لا بالدعاوي المجردة والأقوال الفارغة.
[13] یعنی جب منافقین سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ یعنی جیسے صحابہ کرامyایمان لائے ہیں جو کہ قلب و زبان کا ایمان ہے تو یہ اپنے زعم باطل میں جواب دیتے ہیں ’’کیا ہم ویسا ایمان لائیں جیسا بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟‘‘ ان کا برا ہو۔ بیوقوف لوگوں سے ان کی مراد صحابہ کرامyہیں، کیونکہ ان کے زعم باطل کے مطابق صحابہ کرامyکی بیوقوفی اور حماقت ہی ان کے ایمان، ترک وطن اور کفار سے دشمنی مول لینے کی موجب ہے۔ ان کے نزدیک عقل اس کے متضاد اور برعکس رویے کا تقاضا کرتی ہے۔ بنا بریں انھوں نے صحابہ کرامyکو سفاہت و حماقت سے منسوب کیا۔ ضمنی طور پر اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ صرف وہی عقل مند اور اصحاب دانش و بینش ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے خبر دی کہ درحقیقت وہی بیوقوف اور احمق ہیں۔ کیونکہ بیوقوفی کی حقیقتیہ ہے کہ انسان اپنے مصالح سے بے خبر اور ایسے کاموں میں سرگرم ہو جو اس کے لیے ضرر رساں ہوں اور یہ صفت ان منافقین ہی پر منطبق ہوتی ہے۔ اور عقل اور دانش و بینشیہ ہے کہ انسان کو اپنے مصالح کی معرفت حاصل ہو اور وہ فائدہ مند امور کے حصول اور ضرر رساں امور کو روکنے کے لیے کاوش کرے۔ یہ صفت صحابہ کرامyاور اہل ایمان پر منطبق ہوتی ہے۔ پس (کسی چیز کا) اعتبار مجرد دعوے اور خالی خولی باتوں سے نہیں ہوتا بلکہ اوصاف اور دلائل کی بنا پر ہوتا ہے۔
آیت: 14 - 15
{وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ (14) اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (15)}.
اور جب ملتے ہیں وہ ایمان والوں سے تو کہتے ہیں، ایمان لے آئے ہم اور جب تنہا ہوتے ہیں وہ اپنے سرداروں کی طرف تو کہتے ہیں، بے شک ہم تمھارے ساتھ ہیں، بلاشبہ ہم تو صرف استہزا کرنے والے ہیں(14) اللہ استہزا کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں، وہ بھٹکتے پھرتے ہیں(15)
{14} هذا من قولهم بألسنتهم ما ليس في قلوبهم، وذلك أنهم إذا اجتمعوا بالمؤمنين أظهروا أنهم على طريقتهم، وأنهم معهم، فإذا خلوا إلى شياطينهم ـ أي كبرائهم ورؤسائهم بالشر ـ قالوا: إنا معكم في الحقيقة وإنما نحن مستهزئون بالمؤمنين بإظهارنا لهم أننا على طريقتهم، فهذه حالهم الباطنة والظاهرة، ولا يحيق المكر السيئ إلا بأهله.
[14] یہ قول ان کی ان باتوں میں سے ہے جس کا اظہار وہ اپنی زبانوں سے کرتے تھے درآں حالیکہ ان کے دل میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ جب یہ منافقین اہل ایمان کے پاس جاتے ہیں تو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ان کے طریقے پر گامزن ہیں اور ان کے ساتھ ہیں اور جب وہ اپنے شیطان سرداروں یعنی شریر رؤسا سے تنہائی میں ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں ’’ہم تو درحقیقت تمھارے ساتھ ہیں ہم تو اہل ایمان کو یہ کہہ کر کہ، ہم تمھارے ساتھ ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔‘‘ یہ ہیں ان کے ظاہری اور باطنی احوال۔ بری چال کا وبال اسی پر پڑتا ہے جو یہ چال چلتا ہے۔
{15} قال تعالى: {الله يستهزئُ بهم ويمدهم في طغيانهم يعمهون}؛ وهذا جزاء لهم على استهزائهم بعباده، فمن استهزائه بهم أن زين لهم ما كانوا فيه من الشقاء، والأحوال الخبيثة حتى ظنوا أنهم مع المؤمنين لَمَّا لم يسلطْ الله المؤمنين عليهم، ومن استهزائه بهم يوم القيامة: أنه يعطيهم مع المؤمنين نوراً ظاهراً، فإذا مشى المؤمنون بنورهم طفئ نور المنافقين وبقُوا في الظلمة بعد النور متحيرين، فما أعظم اليأس بعد الطمع {ينادونهم ألم نكن معكم، قالوا بلى ولكنكم فتنتم أنفسكم وتربصتم وارتبتم ... } الآية. قوله: {ويمدهم}؛ أي: يزيدهم {في طغيانهم}؛ أي: فجورهم وكفرهم {يعمهون}؛ أي: حائرون مترددون، وهذا من استهزائه تعالى بهم.
[15] ﴿اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ٘ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْیَعْمَهُوْنَؔ﴾ ’’اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے اور بڑھاتا ہے ان کو ان کی سرکشی میں (اور) وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا یہ استہزا ان کے اس استہزا کی جزا ہے جو وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا یہ ہے کہ وہ ان کے بدبختی کے اعمال اور خبیث احوال کو ان کے سامنے مزین اور آراستہ کر دیتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ان پر مسلط نہیں کیا اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ ہیں۔ قیامت کے روز ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا یہ ہوگا کہ وہ اہل ایمان کے ساتھ انھیں ظاہری روشنی عطا کرے گا۔ جب اہل ایمان اس روشنی میں چلیں گے تو منافقین کی روشنی بجھ جائے گی۔ وہ روشنی کے بجھ جانے کے بعد تاریکی میں متحیر کھڑے رہ جائیں گے۔ پس امید کے بعد مایوسی کتنی بری چیز ہے۔ ﴿یُنَادُوْنَھُمْ اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنَّکُمْ فَتَنْتُمْ اَنْفُسَکُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ﴾ (الحدید:57؍14) ’’وہ منافق اہل ایمان کو پکار کر کہیں گے کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے، اہل ایمان جواب دیں گے کیوں نہ تھے مگر تم نے اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا اور تم ہمارے بارے میں کسی برے وقت کے منتظر رہے اور تم نے اسلام کے بارے میں شک کیا۔‘‘ ﴿وَیَمُدُّھُمْ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ کرتا ہے ﴿فِیْ طُغْیَانِھِمْ﴾ یعنی ان کے فسق و فجور اور کفر میں ﴿یَعْمَھُوْنَ﴾ یعنی وہ حیران و سرگرداں ہیں، یہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا استہزا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی حقیقت احوال کو منکشف کرتے ہوئے فرمایا:
آیت: 16
{أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ (16)}
یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نےخرید لی گمراہی بدلے ہدایت کے، پس نہ نفع بخش ہوئی ان کی تجارت اور نہ ہوئے وہ ہدایت پانے والے(16)
{16} أولئك؛ أي: المنافقون الموصوفون بتلك الصفات {الذين اشتروا الضلالة بالهدى}؛ أي: رغبوا في الضلالة رغبة المشتري في السلعة ، التي ـ من رغبته فيها ـ يبذل فيها الأموال النفيسة، وهذا من أحسن الأمثلة، فإنه جعل الضلالة التي هي غاية الشر كالسلعة، وجعل الهدى الذي هو غاية الصلاح بمنزلة الثمن، فبذلوا الهدى رغبة عنه في الضلالة رغبة فيها، فهذه تجارتهم؛ فبئس التجارة، وهذه صفقتهم؛ فبئست الصفقة. وإذا كان من يبذل ديناراً في مقابلة درهم خاسراً فكيف من بذل جوهرة وأخذ عنها درهماً، فكيف من بذل الهدى في مقابلة الضلالة، واختار الشقاء على السعادة، ورغب في سافل الأمور وترك عاليها ، فما ربحت تجارته بل خسر فيها أعظم خسارة، أولئك الذين خسروا أنفسهم وأهليهم يوم القيامة ألا ذلك هو الخسران المبين. وقوله: {وما كانوا مهتدين}؛ تحقيق لضلالهم وأنهم لم يحصل لهم من الهداية شيء، فهذه أوصافهم القبيحة، ثم ذكر مثلهم [الكاشف لها غاية الكشف]، فقال:
[16] یعنی وہ گمراہی میں اس طرح راغب ہوئے جیسے خریدار کسی ایسے سامان تجارت کو خریدنے کی طرف مائل ہو جسے خریدنے کی اسے سخت چاہت ہو، چنانچہ وہ اس رغبت کی وجہ سے اس میں اپنا قیمتی مال خرچ کرتا ہے اور یہ بہترین مثال ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے گمراہی کو، جو کہ برائی کی انتہا ہے، سامان تجارت سے تشبیہ دی ہے اور ہدایت کو جو کہ بھلائی کی انتہا ہے، اس سامان تجارت کی قیمت سے تشبیہ دی۔ پس انھوں نے ہدایت کو، اس میں بے رغبتی کی وجہ سے اور گمراہی میں رغبت اور چاہت کی وجہ سے، گمراہی کے بدلے میں خرچ کر دیا۔۔۔ پس یہ تھی ان کی تجارت، کتنی بری تجارت تھی اور یہ تھا ان کا سامان بیع اور کتنا برا سامان بیع تھا۔ جب کوئی شخص ایک درہم کے مقابلے میں ایک دینار خرچ کرتا ہے تو خائب و خاسر کہلاتا ہے، تب اس شخص کے خسارے کا کیا حال ہوگا جو جواہر خرچ کر کے اس کے بدلے میں ایک درہم حاصل کرتا ہے اور پھر اس شخص کا خسارہ کتنا بڑا ہوگا جو ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتا ہے، خوش بختی کو چھوڑ کر بدبختی اختیار کرتا ہے اور بلند مقاصد کو ترک کر کے گھٹیا امور کی طرف راغب ہوتا ہے۔ اس کی تجارت نے اسے کوئی نفع نہ دیا بلکہ وہ سب سے بڑے خسارے میں مبتلا ہوگیا۔ ﴿ قُ٘لْ اِنَّ الْخٰؔسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِیْهِمْیَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ (الزمر : 39؍15) ’’(اے نبی) فرما دیجیے کہ بے شک خسارہ اٹھانے والے وہ ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے روز خسارے میں ڈالا۔ آگاہ رہو کہ یہی صریح خسارہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ﴾ ’’اور نہ ہوئے وہ راہ پانے والے‘‘ ان کی گمراہی کو متحقق کرنے کے لیے ہے، نیزیہ کہ ہدایت سے ان کو کوئی حصہ نہیں ملا۔ پس یہ ان منافقین کے بدترین اوصاف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے احوال کو واضح کرنے کے لیے ایک تمثیل بیان کی، فرمایا:
آیت: 17 - 20
{مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ (17) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (18) أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ (19) يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (20)}.
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے جلائی آگ، پھر جب روشن کر دیا اس ( آگ) نے اس کے اردگرد کو، لے گیا اللہ روشنی ان کی اور چھوڑ دیا ان کو اندھیروںمیں، وہ نہیں دیکھتے(17) (وہ) بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں لوٹتے(18) یا (ان کی مثال) زور دار بارش کی سی ہے جو آسمان سے ( آتی) ہے، اس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے، ٹھونستے ہیں اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں، بوجہ کڑکوں کے، موت کے ڈر سے اور اللہ گھیرنے والا ہے کافروں کو(19) ( قریب ہے )بجلی کہ اچک لے آنکھیں ان کی، جب چمکتی ہے ان پر تو وہ چلنے لگتے ہیں اس (کی روشنی) میں اور جب اندھیرا ہوتا ہے ان پر تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور اگر چاہے اللہ تو لے جائے کان ان کے اور آنکھیں ان کی، بے شک اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے(20)
{17} أي: مثلهم المطابق لما كانوا عليه كمثل الذي استوقد ناراً أي: كان في ظلمة عظيمة، وحاجة إلى النار شديدة فاستوقدها من غيره، ولم تكن عنده معدة بل هي خارجة عنه، فلما أضاءت النار ما حوله، ونظر المحل الذي هو فيه وما فيه من المخاوف، وأمنها وانتفع بتلك النار، وقرت بها عينه، وظن أنه قادر عليها، فبينما هو كذلك، إذ ذهب الله بنوره؛ فزال عنه النور وذهب معه السرور، وبقي في الظلمة العظيمة والنار المحرقة؛ فذهب ما فيها من الإشراق وبقي ما فيها من الإحراق، فبقي في ظلمات متعددة: ظلمة الليل، وظلمة السحاب، وظلمة المطر، والظلمة الحاصلة بعد النور، فكيف يكون حال هذا الموصوف؟ فكذلك هؤلاء المنافقون استوقدوا نار الإيمان من المؤمنين ولم تكن صفة لهم، فاستضاؤوا بها مؤقتاً وانتفعوا؛ فحقنت بذلك دماؤهم، وسلمت أموالهم، وحصل لهم نوع من الأمن في الدنيا، فبينما هم كذلك إذ هجم عليهم الموت؛ فسلبهم الانتفاع بذلك النور، وحصل لهم كل هم وغم وعذاب، وحصل لهم ظلمة القبر، وظلمة الكفر، وظلمة النفاق، وظلمة المعاصي على اختلاف أنواعها، وبعد ذلك ظلمة النار وبئس القرار؛ فلهذا قال تعالى عنهم:
[17] یعنی ان کی مثال، جو ان کے احوال کی آئینہ دار ہے، اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی ہو...... یعنییہ شخص اندھیرے میں تھا، آگ کی اسے سخت ضرورت تھی اس نے کسی اور سے لے کر آگ روشن کی۔ یہ آگ اس کے پاس تیار اور موجود نہ تھی۔ جب آگ نے اس کے ماحول کو روشن کر دیا اور اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ کھڑا تھا، ان خطرات کو دیکھا جنھوں نے اسے گھیر رکھا تھا اور اس امن کو دیکھا (جو اسے اس روشنی کے باعث حاصل ہوا تھا) اس نے اس آگ سے فائدہ اٹھایا اور اس آگ سے اسے اطمینان حاصل ہوا وہ سمجھتا تھا کہ اس آگ پر اسے پوری قدرت حاصل ہے اور اسی خیال میں غلطاں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روشنی لے کر زائل کر دی، اس کے ساتھ اس کی مسرت بھی چلی گئی اور وہ سخت تاریکی میں کھڑا رہ گیا۔ آگ کی روشنی چلی گئی مگر اس کی جلا دینے والی حرارت باقی رہ گئی۔ پس وہ متعدد تاریکیوں میں گھرا ہوا رہ گیا، رات کی تاریکی، بادلوں کا اندھیرا، بارش کا اندھیرا اور ایک وہ اندھیرا جو روشنی کے بجھنے کے فوراً بعد محسوس ہوتا ہے تب اس بیان کردہ شخص کی کیا حالت ہوگی؟یہی حال ان منافقین کا ہے۔ انھوں نے اہل ایمان سے ایمان کی آگ لے کر آگ روشن کی کیونکہ وہ ایمان کی روشنی سے بہرہ ور نہ تھے، انھوں نے وقتی طور پر اس آگ سے روشنی حاصل کی اور اس سے فائدہ اٹھا یا، اس طرح انھوں نے اپنے جان و مال کو محفوظ کر لیا اور دنیا میں ان کو ایک قسم کا امن حاصل ہوگیا وہ اسی حالت میں تھے کہ اچانک ان پر موت حملہ آور ہوئی اور اس روشنی سے حاصل ہونے والے تمام فوائد اس سے چھین لے گئی، ہر قسم کا عذاب اور غم ان پر مسلط ہوگیا، کفر و نفاق اور گناہوں کی مختلف تاریکیوں نے ان کو گھیر لیا، اس کے بعد انھیں جہنم کے اندھیروں کا سامنا کرنا ہوگا جو بدترین ٹھکانا ہے۔
{18} {صمٌّ}؛ أي: عن سماع الخير {بكمٌ}، أي: عن النطق به {عميٌ} عن رؤية الحق {فهم لا يرجعون}؛ لأنهم تركوا الحق بعد أن عرفوه؛ فلا يرجعون إليه، بخلاف من ترك الحق عن جهل وضلال؛ فإنه لا يعقل، وهو أقرب رجوعاً منهم.
[18] بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿صُمٌّ ﴾ وہ بھلائی کی بات سننے سے بہرے ہیں ﴿بُكْمٌ﴾ وہ بھلائی کی بات کہنے سے گونگے ہیں ﴿عُمْیٌ ﴾ حق کے دیکھنے سے اندھے ہیں ﴿فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ﴾ چونکہ انھوں نے حق کو پہچان کر ترک کیا ہے اس لیے اب یہ واپس نہیں لوٹیں گے۔ ان کی حالت اس شخص کی حالت کے برعکس ہے جو محض جہالت اور گمراہی کی بنا پر حق کو ترک کرتا ہے کیونکہ وہ اسے سمجھتا نہیں۔ ان کی نسبت اس شخص کے بارے میں زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کرے۔
{19} ثم قال تعالى: {أو كصيب من السماء}؛ أي: كصاحب صيب وهو: المطر الذي يصوب؛ أي: ينزل بكثرة {فيه ظلمات}؛ ظلمة الليل، وظلمة السحاب، وظلمة المطر، وفيه {رعد}؛ وهو: الصوت الذي يسمع من السحاب وفيه {برق}؛ وهو الضوء اللامع المشاهد من السحاب.
[19] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ﴾ یا (ان کی مثال) اس شخص کی مانند ہے جس پر موسلا دھار بارش ہو رہی ہو۔ (صَیِّبٍ) سے مراد وہ بارش ہے جو موسلا دھار برستی ہے۔ ﴿فِیْهِ ظُلُمَاتٌ﴾ ’’اس میں اندھیرے ہیں۔‘‘ اس سے مراد ہے، رات کا اندھیرا، بادل کا اندھیرا اور بارش کی تاریکیاں۔ ﴿وَرَعْدٌ﴾ ’’اور کڑک کی آواز ہے۔‘‘ جو کہ بادل سے سنائی دیتی ہے۔ ﴿وَبَرْقٌ﴾ اوربجلی کی وہ چمک ہے جو بادلوں میں دکھائی دیتی ہے۔
{20} {كلما أضاء لهم}؛ البرق في تلك الظلمات {مشوا فيه وإذا أظلم عليهم قاموا}؛ أي: وقفوا، فهكذا حالة المنافقين إذا سمعوا القرآن، وأوامره ونواهيه، ووعده ووعيده؛ جعلوا أصابعهم في آذانهم، وأعرضوا عن أمره ونهيه، ووعده ووعيده؛ فيروعهم وعيده، وتزعجهم وعوده، فهم يعرضون عنها غاية ما يمكنهم ويكرهونها كراهة صاحب الصيب الذي يسمع الرعد فيجعل أصابعه في أذنيه خشية الموت، فهذا ربما حصلت له السلامة ، وأما المنافقون فأنى لهم السلامة وهو تعالى محيط بهم قدرة وعلماً فلا يفوتونه ولا يعجزونه، بل يحفظ عليهم أعمالهم ويجازيهم عليها أتم الجزاء. ولما كانوا مبتلين بالصمم والبكم والعمى المعنوي ومسدودة عليهم طُرُقُ الإيمان قال تعالى: {ولو شاء الله لذهب بسمعهم وأبصارهم}؛ أي الحسية، ففيه تخويف لهم وتحذير من العقوبة الدنيوية؛ ليحذروا فيرتدعوا عن بعض شرهم ونفاقهم {إن الله على كل شيء قدير}؛ فلا يعجزه شيء، ومن قدرته أنه إذا شاء شيئاً فعله من غير ممانع ولا معارض. وفي هذه الآية وما أشبهها ردٌّ على القدرية القائلين بأن أفعالَهم غير داخلة في قدرة الله تعالى؛ لأن أفعالهم من جملة الأشياء الداخلة في قوله: {إن الله على كل شيء قدير}.
[20] ﴿کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ﴾ یعنی اس بجلی کی چمک جب اندھیرے میں روشنی کرتی ہے۔ ﴿مَشَوْا فِیْهِ وَاِذَا اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا﴾ ’’تو چلتے ہیں اس میں اور جب ان پر اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں‘‘یعنی وہ کھڑے رہ جاتے ہیں۔ پس اسی قسم کی حالت منافقین کی ہے جب وہ قرآن مجید، اس کے اوامر و نواہی اور اس کے وعد و وعید سنتے ہیں تو اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ اس کے اوامر و نواہی اور وعد و وعید سے اعراض کرتے ہیں وعید ان کو گھبراہٹ میں مبتلا کرتی ہے اور اس کے وعدے ان کو پریشان کر دیتے ہیں۔ وہ حتیٰ الامکان ان سے اعراض کرتے ہیں اور اس شخص کی مانند اسے سخت ناپسند کرتے ہیں جو سخت بارش میں گھرا ہوا بجلی کی کڑک سنتا ہے اور موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے اس شخص کو تو بسا اوقات سلامتی اور امن مل جاتا ہے۔ مگر منافقین کے لیے کہاں سے سلامتی آئے گی؟ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اس کی پکڑ سے بھاگ نہیں سکتے اور نہ وہ اس کو عاجز کر سکتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو اعمال ناموں میں محفوظ کر دیتا ہے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی پوری پوری جزا دے گا۔ چونکہ وہ معنوی بہرے پن، گونگے پن اور اندھے پن میں مبتلا ہیں اور ان پر ایمان کی تمام راہیں مسدود ہیں اس لیے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ﴾ ’’اور اگر اللہ چاہے تو لے جائے ان کے کان اور ان کی آنکھیں‘‘یعنی ان کی حس سماعت اور حس بصارت سلب کر لے۔ اس آیت کریمہ میں ان کو دنیاوی سزا سے ڈرایا گیا ہے تاکہ وہ ڈر کر اپنے شر اور نفاق سے باز آجائیں۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ اس لیے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں سے یہ بات بھی ہے کہ جب وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو کر گزرتا ہے۔ کوئی اس کو روکنے والا اور اس کی مخالفت کرنے والا نہیں۔ اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات میں قدریہ کا رد ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں کے افعال اللہ تعالیٰ کی قدرت میں داخل نہیں ہیں، کیونکہ انسانوں کے افعال بھی من جملہ ان اشیاء کے ہیں جو ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ کے تحت، اس کی قدرت میں داخل ہیں۔
آیت: 21 - 22
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (22)}.
اے لوگو! عبادت کرو تم اپنے رب کی، وہ جس نے پیدا کیا تمھیں اور ان کو جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ(21) وہ جس نے بنایا تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت، اور نازل کیااس نے آسمان سے پانی، پھر نکالا ساتھ اس کے پھلوں سے رزق تمھارے لیے، پس نہ ٹھہراؤ تم اللہ کا شریک، حالانکہ تم جانتے ہو(22)
{21} هذا أمر عام لجميع الناس بأمر عام وهو العبادة الجامعة لامتثال أوامر الله واجتناب نواهيه وتصديق خبره، فأمرهم تعالى بما خلقهم له، قال تعالى: {وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون}؛ ثم استدل على وجوب عبادته وحده بأنه ربكم الذي رباكم بأصناف النعم، فخلقكم بعد العدم، وخلق الذين من قبلكم.
[21] یہ تمام لوگوں کے لیے امر عام ہے۔ اور وہ اللہ کی عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت، اس کے نواہی سے اجتناب اور اس کی خبر کی تصدیق کی جامع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کے لیے ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ فرمایا: ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْ٘سَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات : 51؍56) ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ پھر صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے پر اس بات سے استدلال کیا ہے کہ وہ تمھارا رب ہے اس نے تمھیں بہت سی نعمتوں سے نواز کر تمھاری تربیت اور پرورش کی۔ وہ تمھیں عدم سے وجود میں لایا۔ اس نے ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے تھے۔
{22} وأنعم عليكم بالنعم الظاهرة والباطنة، فجعل لكم الأرض فراشاً تستقرون عليها، وتنتفعون بالأبنية والزراعة والحراثة والسلوك من محل إلى محل، وغير ذلك من وجوه الانتفاع بها، وجعل السماء بناء لمسكنكم وأودع فيها من المنافع ما هو من ضروراتكم وحاجاتكم كالشمس والقمر والنجوم {وأنزل من السماء ماء}؛ والسماء هو: كل ما علا فوقك فهو سماء، ولهذا قال المفسرون: المراد بالسماء ههنا السحاب، فأنزل منه تعالى ماء {فأخرج به من الثمرات}؛ كالحبوب والثمار من نخيل وفواكه وزروع وغيرها {رزقاً لكم}؛ به ترتزقون وتتقوتون وتعيشون وتفكهون ، {فلا تجعلوا لله أنداداً}؛ أي: أشباهاً ونظراء من المخلوقين؛ فتعبدونهم كما تعبدون الله، وتحبونهم كما تحبونه ، وهم مِثْلكم مخلوقون مرزوقون مُدبَّرون، لا يملكون مثقال ذرة في الأرض، ولا في السماء ، ولا ينفعونكم ولا يضرون {وأنتم تعلمون}؛ أن الله ليس له شريك، ولا نظير لا في الخلق والرزق والتدبير، ولا في الألوهية والكمال ، فكيف تعبدون معه آلهة أخرى مع علمكم بذلك؟ هذا من أعجب العجب وأسفه السفه. وهذه الآية جمعت بين الأمر بعبادة الله وحده، والنهي عن عبادة ما سواه، وبيان الدليل الباهر على وجوب عبادته وبطلان عبادة ما سواه، وهو ذكر توحيد الربوبية المتضمن انفراده بالخلق والرزق والتدبير، فإذا كان كل أحد مقرًّا بأنه ليس له شريك بذلك فكذلك؛ فليكن الإقرار بأن الله ليس له شريك في عبادته ، وهذا أوضح دليل عقلي على وحدانية الباري تعالى وبطلان الشرك. وقوله: {لعلكم تتقون}؛ يحتمل أن المعنى أنكم إذا عبدتم الله وحده اتقيتم بذلك سخطه وعذابه؛ لأنكم أتيتم بالسبب الدافع لذلك، ويحتمل أن يكون المعنى أنكم إذا عبدتم الله صرتم من المتقين الموصوفين بالتقوى، وكلا المعنيين صحيح، وهما متلازمان، فمن أتى بالعبادة كاملة؛ كان من المتقين، ومن كان من المتقين؛ حصلت له النجاة من عذاب الله، وسخطه.
[22] اس نے تمھیں ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کیں۔ اس نے زمین کو تمھارے لیے فرش بنایا جہاں تم اپنا ٹھکانا بناتے ہو۔ جہاں تم عمارات تعمیر کر کے، زراعت اور کاشتکاری کر کے، اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کر کے مختلف فوائد حاصل کرتے ہو، اس کے علاوہ تم زمین کے بعض دیگر فوائد سے استفادہ کرتے ہو۔ اس نے تمھارے اس مسکن کے لیے آسمان کو چھت بنایا۔ اس نے تمھاری ضروریات اور حاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس چھت میں بھی بہت سی نفع بخش چیزیں، مثلاً سورج، چاند اور ستارے پیدا کیے۔ ﴿وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً﴾ ’’اور اتارا اس نے آسمان سے پانی۔‘‘ ہر وہ چیز جو آپ کے اوپر، اور بلند ہے وہ آسمان کہلاتی ہے۔ بنا بریں علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ یہاں آسمان سے مراد بادل ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا ﴿فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّ٘مَرٰتِ﴾ اور اس پانی کے ذریعے سے مختلف اقسام کے غلہ جات، مختلف انواع کے پھل اور میوہ جات، کھجوریں اور دیگر کھیتیاں اگائیں ﴿رِزْقًا لَّکُمْ﴾ تمھارے رزق کے طور پر، جس سے تم رزق اور خوراک حاصل کرتے ہو، اس رزق سے زندگی بسر کرنے کا سامان کرتے ہو اور اس سے تم لذت حاصل کرتے ہو۔ ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ پس تم مخلوق میں سے اس کی برابری کرنے والے ہمسر بنا کر ان کی عبادت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو، اور ان سے ایسی محبت نہ کرو جیسے تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو، وہ بھی تمھاری مانندمخلوق ہیں ان کو بھی رزق دیا جاتا ہے اور ان کی زندگی کی بھی تدبیر کی جاتی ہے۔ وہ زمین و آسمان میں ایک ذرے کے بھی مالک نہیں۔ وہ تمھیں نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ حالانکہ تم جانتے ہو کہ تخلیق کرنے، رزق عطا کرنے اور کائنات کی تدبیر کرنے میں اس کا کوئی شریک اور کوئی نظیر نہیں اور نہ الوہیتاور کمال میں اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے پھر تم کیسے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی عبادت کرتے ہو۔ یہ بڑی عجیب بات اور سب سے بڑی حماقت ہے۔ یہ آیت کریمہ صرف ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کےحکم اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ہستی کی عبادت کرنے سے ممانعت کو جمع کرنے والی ہے، نیز اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وجوب کی واضح دلیل اور اس کے سوا کسی اور کی عبادت کے بطلان کے بیان پر مشتمل ہے۔ یہ توحید ربوبیت ہے جو اس امر کو متضمن ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی تخلیق کرتا، وہی رزق عطا کرتا اور وہی کائنات کی تدبیر کرتا ہے۔ جب ہر ایک شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ ان تمام امور میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں تو اسے یہ اقرار بھی کرنا چاہیے کہ عبادت میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے اثبات اور شرک کے بطلان پر واضح ترین عقلی دلیل ہے۔ ﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ‘‘ اس آیت کریمہ میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ جب تم ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو گے تو اس کی ناراضی اور عذاب سے بچ جاؤ گے۔ کیونکہ تم نے ایک ایسا سبب اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ اس کے ایک دوسرے معنییہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے بن جاؤ گے تو تم متقین میں شمار ہو گے جو تقویٰ کی صفت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں اور دونوں میں تلازم پایا جاتا ہے، یعنی جو کوئی کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے اس کا شمار اہل تقویٰ میں ہوتا ہے اور جو کوئی متقی بن جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے نجات حاصل ہو جاتی ہے۔
آیت: 23 - 24
{وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (23) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (24)}.
اور اگر ہو تم شک میں اس (قرآن) سے جو نازل کیا ہم نے اپنے بندے پر، تو لے آؤ تم ایک سورت اس جیسی اور بلا لو تم اپنے مددگاروں کو سوائے اللہ کے، اگر ہو تم سچے(23) پس اگر نہ کر سکو تم (یہ کام) اور ہرگز نہیں کر سکو گے تم، تو بچو اس آگ سے کہ ایندھن اس کا ہیںآدمی اور پتھر، تیار کی گئی ہے (وہ) کافروں کے لیے(24)
{23} وهذا دليل عقلي على صدق رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وصحة ما جاء به فقال: وإن كنتم ـ يا معشر المعاندين للرسول الرادين دعوته الزاعمين كذبه ـ في شك، واشتباه مما نزلنا على عبدنا، هل هو حق أو غيره؟ فههنا أمر نَصَفٌ فيه الفيصلة بينكم وبينه، وهو: أنه بشر مثلكم ليس من جنس آخر ، وأنتم تعرفونه منذ نشأ بينكم لا يكتب ولا يقرأ، فأتاكم بكتاب زعم أنه من عند الله، وقلتم أنتم إنه تقوَّله وافتراه، فإن كان الأمر كما تقولون؛ فأتوا بسورة من مثله، واستعينوا بمن تقدرون عليه من أعوانكم وشهدائكم، فإن هذا أمر يسير عليكم، خصوصاً وأنتم أهل الفصاحة والخطابة والعداوة العظيمة للرسول، فإن جئتم بسورة من مثله؛ فهو كما زعمتم، وإن لم تأتوا بسورة من مثله وعجزتم غاية العجز [ولن تأتوا بسورة من مثله، ولكنّ هذا التقييم على وجه الإنصاف والتنزل معكم]؛ فهذا آية كبيرة ودليل واضح جلي على صدقه وصدق ما جاء به؛ فيتعين عليكم اتباعه، واتقاء النار التي بلغت في الحرارة العظيمة والشدة، أن كان وقودها الناس والحجارة، ليست كنار الدنيا التي إنما تُتَّقَد بالحطب، وهذه النار الموصوفة مُعَدة ومُهَيأة للكافرين بالله ورسله؛ فاحذروا الكفر برسوله بعدما تبين لكم أنه رسول الله.
[23] یہ رسول اللہeکی صداقت اور وحی الٰہی کی صحت کی عقلی دلیل ہے۔ گویا فرمایا: ’’اے رسول کے ساتھ عناد رکھنے والو! اس کی دعوت کو رد کرنے والو! اور اسے جھوٹا سمجھنے والو! اگر تم اس وحی کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کہ آیایہ حق ہے یا نہیں تو یہاں ایک ایسا معاملہ موجود ہے جسے ہم تمھارے اور اس کے درمیان فیصلہ کن انداز میں بیان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ وہ بھی تمھاری طرح بشر ہے کسی اور جنس سے نہیں، جب سے وہ پیدا ہوا ہے اس وقت سے تم اسے جانتے ہو وہ لکھ سکتا ہے نہ پڑھ سکتا ہے۔ اس نے تمھارے سامنے ایک کتاب پیش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تم کہتے ہو کہ اس نے اسے خود گھڑا ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا ہے۔ اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم کہتے ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور اپنے جن اعوان و انصار اور حمائتیوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو بلا لو! تمھارے لیےیہ کام بہت آسان اور معمولی ہے خاص طور پر جبکہ تم فصاحت و خطابت کے میدان کے شاہسوار ہو اور اس رسول کی عداوت میں بھی بہت آگے ہو۔ اگر تم نے اس کتاب جیسی ایک سورت بھی پیش کر دی تو تم اس کتاب کو جھوٹ، بہتان کہنے میں حق بجانب ہو اور اگر تم اس جیسی ایک بھی سورت پیش نہ کر سکے اور اسے پیش کرنے سے مکمل طور پر عاجز آگئے تو تمھارا یہ عجز اور بے بسی رسول اور وحی الٰہی کی صداقت کی بڑی نشانی اور واضح دلیل ہے۔ پھر تم پر لازم ہو جاتا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو اور اس آگ سے بچو جس کی گرمی اور حرارت اتنی زیادہ ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، دنیاوی آگ کی مانند نہیں جسے (لکڑی کے) ایندھن سے بھڑکایا جاتا ہے۔ یہ بیان کردہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اس لیے جب تمھیںیہ معلوم ہوگیا کہ یہ رسول برحق ہے تو اس کا انکار کرنے سے ڈرو۔
{24} وهذه الآية ونحوها يسمونها: آية التحدي، وهو: تعجيز الخلق عن أن يأتوا بمثل هذا القرآن أو يعارضوه بوجه، قال تعالى: {قل لئن اجتمعت الإنس والجن على أن يأتوا بمثل هذا القرآن لا يأتون بمثله ولو كان بعضهم لبعض ظهيراً}؛ وكيف يقدر المخلوق من تراب أن يكون كلامه ككلام رب الأرباب، أم كيف يقدر الفقير الناقص من جميع الوجوه أن يأتي بكلام ككلام الكامل، الذي له الكمال المطلق، والغنى الواسع من جميع الوجوه ؟ هذا ليس في الإمكان ولا في قدرة الإنسان، وكل من له أدنى ذوق ومعرفة بأنواع الكلام ، إذا وزن هذا القرآن [العظيم] بغيره من كلام البلغاء، ظهر له الفرق العظيم. وفي قوله: {وإن كنتم في ريب}؛ إلى آخره، دليل على أن الذي يرجى له الهداية من الضلالة هو الشاك الحائر، الذي لم يعرف الحق من الضلالة، فهذا الذي إذا بين له الحق حري باتباعه إن كان صادقاً في طلب الحق، وأما المعاند الذي يعرف الحق ويتركه، فهذا لا يمكن رجوعه؛ لأنه ترك الحق بعد ما تبين له، لم يتركه عن جهل فلا حيلة فيه، وكذلك الشاكُّ الذي ليس بصادق في طلب الحق بل هو معرض غير مجتهد بطلبه؛ فهذا في الغالب لا يوفق. وفي وصف الرسول بالعبودية في هذا المقام العظيم دليل على أن أعظم أوصافه - صلى الله عليه وسلم - قيامه بالعبودية التي لا يلحقه فيها أحد من الأولين والآخرين، كما وصفه بالعبودية في مقام الإسراء فقال: {سبحان الذي أسرى بعبده ليلاً}؛ وفي مقام الإنزال فقال: {تبارك الذي نزل الفرقان على عبده ليكون للعالمين نذيراً}. وفي قوله: {أعدت للكافرين}؛ ونحوها من الآيات دليل لمذهب أهل السنة والجماعة أن الجنة والنار مخلوقتان، خلافاً للمعتزلة. وفيها أيضاً: أن الموحدين وإن ارتكبوا بعض الكبائر لا يخلدون في النار لأنه قال: {أعدت للكافرين}؛ فلو كان عصاة الموحدين يخلدون فيها لم تكن معدة للكافرين وحدهم، خلافاً للخوارج والمعتزلة وفيها: دلالة على أن العذاب مُستَحَق بأسبابه وهو الكفر وأنواع المعاصي على اختلافها.
[24] اس آیت اور اس قسم کی دیگر آیات کو آیات تحدی (مقابلہ کرنے کی دعوت دینے والی آیات) کہا جاتا ہے ’’تحدی‘‘ سے مراد ہے مخلوق کو قرآن جیسی کوئی کتاب پیش کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز کر دینا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُ٘لْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْ٘سُ وَالْ٘جِنُّ عَلٰۤى اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْ٘لِ هٰؔذَا الْ٘قُ٘رْاٰنِ لَا یَ٘اْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ٘ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیْرًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍88) ’’کہو اگر تمام جن و انس اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس جیسا قرآن بنا لائیں تو اس جیسا قرآن بنا کر نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘ پس مشت خاک سے بنے ہوئے انسان کا کلام رب الارباب کے کلام کی مانند کیسے ہو سکتا ہے؟ یا ناقص اور تمام پہلوؤں سے محتاج ہستی اس کامل ہستی کے کلام جیسا کلام کیسے پیش کر سکتی ہے جو تمام پہلوؤں سے کمال مطلق کی اور بے پایاں بے نیازی کی مالک ہے؟ یہ چیز دائرہ امکان اور انسانی بساط سے باہر ہے۔ ہر وہ شخص جو کلام کی مختلف اصناف کی تھوڑی بہت بھی معرفت رکھتا ہے جب قرآن کا اصحاب بلاغت کے کلام سے تقابل کرے گا تو اس پر ظاہر ہو جائے گا کہ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ﴾ ’’اگر تم شک میں مبتلا ہو۔‘‘ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے لیے ہدایت کی توقع کی جا سکتی ہے یہ وہ شخص ہے جو شک میں مبتلا اور حیران و پریشان ہے۔ جو گمراہی میں سے حق کو نہیں پہچان سکتا۔ اگر وہ طلب حق میں سچا ہے تو اس کے لیے حق واضح ہو جانے کے بعد اس کا اتباع کرنا زیادہ مناسب ہے۔ وہ شخص جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور حق کو پہچان کر بھی اسے ترک کر دیتا ہے اس کے حق کی طرف رجوع کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس نے حق کو اپنی جہالت کی وجہ سے ترک نہیں کیا بلکہ اس نے حق کو اس کے واضح ہو جانے کے بعد رد کیا ہے۔ اسی طرح وہ متشکک شخص جو تلاش حق میں سچا جذبہ نہیں رکھتا بلکہ وہ حق سے گریز کرتا ہے اور تلاش حق میں تگ و دو نہیں کرتا وہ اکثر و بیشتر قبول حق کی توفیق سے محروم رہتا ہے۔ اس مقام عظیم پر رسول اللہeکے وصف عبدیت کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ عبدیت آپ کی سب سے بڑی صفت ہے اس مقام بلند تک اولین و آخرین میں سے کوئی شخص بھی آپ کے مقام تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسے معراج کے موقع پر آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿سُبْحٰؔنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰؔى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍1) ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں سفر کرایا۔‘‘ قرآن کی تنزیل کے وقت بھی آپ کی عبدیت کو بیان فرمایا: ﴿ تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْ٘فُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْ٘عٰلَمِیْنَ نَذِيْرًا﴾ (الفرقان : 25؍1) ’’نہایت برکت والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کو ڈرائے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿اُعِدَّتْ لِلْکَافِرِیْنَ﴾ ’’جہنم کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔‘‘ اور اس قسم کی دیگر آیات سے اہل سنت کے اس مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ جنت اور جہنم دونوں پیدا کی ہوئی ہیں۔ جبکہ معتزلہ اس بات کے قائل نہیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل سنت کے اس عقیدے کی بھی تائید ہوتی ہے کہ گناہ گار اور کبائر کے مرتکب موحدین ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ جہنم کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ خوارج اور معتزلہ کے عقیدے کے مطابق اگر موحدین کے لیے جہنم میں دوام اور خلود ہوتا تو یہ صرف کفار کے لیے تیار نہ کی گئی ہو تی۔ نیز اس آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ عذاب اپنے اسباب یعنی کفر اور مختلف گناہوں کے ارتکاب سے ثابت ہوتا ہے۔
آیت: 25
{وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (25)}.
اور خوشخبری دیجیے! ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے اچھے، یقیناً ان کے لیے باغات ہیں، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں جب بھی دیے جائیں گے وہ ان میں سے کوئی پھل بطور رزق کے تو کہیں گے:یہ تو وہی ہے جو دیے گئے تھے ہم اس سے پہلےاور دیے جائیں گے(رزق) ملتا جلتا،اور ان کے لیے ان میں بیویاں ہیں پاکیزہ اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے(25)
{25} لمَّا ذكر جزاء الكافرين ذكر جزاء المؤمنين أهل الأعمال الصالحات كما هي طريقته تعالى في كتابه يجمع بين الترغيب والترهيب؛ ليكون العبد راغباً راهباً خائفاً راجياً فقال: {وبشّر}؛ أي: أيها الرسول ، ومن قام مقامك {الذين آمنوا}؛ بقلوبهم {وعملوا الصالحات}؛ بجوارحهم؛ فصدقوا إيمانهم بأعمالهم الصالحة، ووُصِفت أعمال الخير بالصالحات؛ لأن بها تصلح أحوال العبد، وأمور دينه ودنياه، وحياته الدنيوية والأخروية، ويزول بها عنه فساد الأحوال؛ فيكون بذلك من الصالحين الذين يصلحون لمجاورة الرحمن في جنته فبشرهم {أن لهم جنات}؛ أي: بساتين جامعة للأشجار العجيبة والثمار الأنيقة والظل المديد والأغصان والأفنان، وبذلك صارت جنة يجتن بها داخلها وينعم فيها ساكنها {تجري من تحتها الأنهار}؛ أي: أنهار الماء واللبن والعسل والخمر يفجرونها كيف شاؤوا، ويصرفونها أين أرادوا، وتُسقَى منها تلك الأشجار؛ فتنبت أصناف الثمار {كلما رزقوا منها من ثمرة رزقاً قالوا هذا الذي رزقنا من قبل}؛ أي: هذا من جنسه وعلى وصفه، كلها متشابهة في الحسن واللذة ليس فيها ثمرة خاسَّةٌ، وليس لهم وقت خالٍ من اللَّذة؛ فهم دائماً متلذذون بأُكُلِها، وقوله: {وأتوا به متشابهاً}؛ قيل: متشابهاً في الاسم مختلفاً في الطعم ، وقيل: متشابهاً في اللون مختلف في الاسم، وقيل: يشبه بعضه بعضاً في الحسن واللذة والفكاهة، ولعل هذا أحسن. ثم لما ذكر مسكنهم، وأقواتهم من الطعام والشراب، وفواكههم ذكر أزواجهم؛ فوصفهنَّ بأكمل وصف وأوجزه وأوضحه؛ فقال: {ولهُم فيها أزواجٌ مُطهرةٌ}؛ فلم يقل مطهرةٌ من العيب الفلاني؛ ليشمل جميع أنواع التطهير، فهنَّ مطهرات الأخلاق، مطهرات الخلق، مطهرات اللسان، مطهرات الأبصار، فأخلاقهن أنهن عُرُبٌ متحببات إلى أزواجهن بالخلق الحسن وحسن التبعل والأدب القولي والفعلي، ومطهرٌ خَلْقُهن من الحيض والنفاس والمني والبول والغائط والمخاط والبصاق والرائحة الكريهة، ومُطَهرات الخَلْق أيضاً بكمال الجمال؛ فليس فيهن عيب ولا دمامة خَلْق، بل هن خيرات حسان، مطهرات اللسان والطرف، قاصرات طرفهن على أزواجهن، وقاصرات ألسنتهن عن كل كلام قبيح. ففي هذه الآية الكريمة ذكر المبشِّر والمُبشَّر والمُبَشَّر به والسبب الموصل لهذه البشارة؛ فالمبشر هو: الرسول - صلى الله عليه وسلم - ومن قام مقامه من أمته، والمبشَّر هم: المؤمنون العاملون الصالحات، والمبشر به هي: الجنات الموصوفات بتلك الصفات، والسبب الموصل لذلك، هو: الإيمان والعمل الصالح، فلا سبيل إلى الوصول إلى هذه البشارة إلا بهما، وهذا أعظم بشارة حاصلة على يد أفضل الخلق بأفضل الأسباب، وفيه استحباب بشارة المؤمنين وتنشيطهم على الأعمال بذكر جزائها وثمراتها؛ فإنها بذلك تخف وتسهل، وأعظم بشرى حاصلة للإنسان توفيقه للإيمان والعمل الصالح، فذلك أول البشارة وأصلها، ومن بعده البشرى عند الموت، ومن بعده الوصول إلى هذا النعيم المقيم. نسأل الله من فضله.
[25] جب اللہ تعالیٰ نے کفار کی جزا کا ذکر کیا تو اعمال صالحہ سے آراستہ اہل ایمان کی جزا بھی بیان فرما دی، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کا طریقہ ہے کہ وہ ترغیب و ترہیب کو اکٹھا بیان کرتا ہے تاکہ بندۂ مومن اللہ کی رحمت میں رغبت بھی رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔ اس کے دل میں عذاب کا خوف ہو تو رحمت و مغفرت کی امید سے بھی سرشار ہو۔ ﴿ وَبَشِّرْ﴾ یعنی اے رسول! آپ اور آپ کا قائم مقام خوشخبری دے دے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یعنی جو اپنے دل سے ایمان لائے ﴿وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ﴾ اور انھوں نے اپنے جوارح سے نیک کام سر انجام دیے۔ پس انھوں نے اعمال صالحہ کے ذریعے سے اپنے ایمان کی تصدیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے اعمال خیر کو ’’الصالحات‘‘ سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ ان کے ذریعے سے بندے کے احوال، اس کے دینی اور دنیاوی امور اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی احوال کا فساد زائل ہوتا ہے پس اس کی وجہ سے اس کا شمار صالحین میں ہو جاتا ہے جو جنت میں اللہ تعالیٰ کی مجاورت اور اس کے قرب کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔ پس ان کو خوشخبری سنا دیجیے ﴿اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ﴾ کہ ان کے لیے جنت کے باغات ہیں جن میں عجیباقسام کے درخت، نفیس انواع کے پھل، گہرے سائے اور درختوں کی نہایت خوبصورت شاخیں ہوں گی۔ اسی وجہ سے اس کا نام جنت ہے، اس میں داخل ہونے والے اس کے باغوں اور گہری چھاؤں سے فیضیاب ہوں گے اور اس میں رہنے والے اس میں عیش و عشرت کی زندگی گزاریں گے۔ ﴿تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ﴾ یعنی جنت میں پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔ وہ جیسے چاہیں گے انھیں جاری کر لیں گے اور جہاں چاہیں گے انھیں پھیر لیں گے۔ انھی نہروں سے جنت کے درخت سیراب ہوں گے اور مختلف اصناف کے پھل پیدا ہوں گے۔ ﴿کُلَّمَارُزِقُوْا مِنْھَامِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَامِنْ قَبْلُ﴾ ’’جب بھی ان کو اس میں سے کھانے کو کوئی پھل دیا جائے گا، تو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہمیں دیا گیا‘‘یعنی جنت کا یہ پھل دنیا کے پھلوں کی جنس میں سے ہوگا اس میں دنیا کے پھلوں کی سی صفات ہوں گی۔ خوبصورتی اور لذت میں جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہوں گے۔ ان میں کوئی بدذائقہ پھل نہ ہوگا اور کوئی وقت ایسا نہ ہوگا جس میں اہل جنت لذت نہ اٹھا رہے ہوں گے بلکہ وہ دائمی طور پر جنت کے پھلوں کی لذت سے لطف اندوز ہوں گے۔ ﴿وَاُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِھًا﴾ ’’اور دیے جائیں گے ان کو پھل ملتے جلتے‘‘ کہا جاتا ہے کہ (جنت کے پھل) نام میں مشابہت رکھتے ہیں اور ذائقے میں مختلف ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد ہے کہ وہ رنگ میں مشابہت رکھتے ہیں مگر نام مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ وہ خوبصورتی، لذت اور مٹھاس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ شایدیہی تعبیر احسن ہے۔ پھر جہاں اہل جنت کے مساکن، ان کی خوراک، طعام و مشروبات اور پھلوں کا ذکر کیا ہے وہاں ان کی بیویوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ نہایت ایجاز و اختصار کے ساتھ مکمل اور واضح طور پر ان کا وصف بیان کیا ہے۔ ﴿وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ﴾ ’’ان کے واسطے اس میں بیویاں ہوں گی پاک‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ فلاں عیب سے پاک ہوں گی۔ کیونکہیہ تطہیر، طہارت کی تمام اقسام پر مشتمل ہوگی۔ ان کے اخلاق پاک ہوں گے، ان کی تخلیق پاکیزگی پر مبنیہوگی، ان کی زبان پاک ہوگی اور ان کی نظر پاک ہوگی۔ ان کے اخلاق کی پاکیزگییہ ہے کہ وہ دلکش ہوں گی اور اپنے اخلاق حسنہ، حسن اطاعت اور قولی و فعلی آداب کے ساتھ اپنے شوہروں سے اظہار محبت کریں گی۔ حیض و نفاس، منی، بول و براز، تھوک، بلغم اور بدبو سے پاک ہوں گی،نیز اپنی جسمانی تخلیق میں بھی پاک ہوں گی۔ وہ کامل حسن و جمال سے بہرہ ور ہوں گی۔ ان کے اندر کسی قسم کا عیب اور کسی قسم کی جسمانی بدصورتی نہ ہوگی بلکہ وہ نیک سیرت اور خوبصورت ہوں گی۔ وہ پاک نظر اور پاک زبان ہوں گی۔ وہ نیچی نگاہوں والی ہوں گی اور ان کی نگاہیں اپنے شوہروں سے آگے نہ بڑھیں گی۔ ان کی زبانیں ہر گندی بات سے محفوظ اور پاک ہوں گی۔ اس آیت کریمہ میں مندرجہ ذیل امور کا ذکر کیا گیا ہے: (۱)خوشخبری دینے والا۔ (۲) جس کو خوشخبری دی گئی ہے۔ (۳) جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے۔ (۴) وہ سبب جو اس خوشخبری کا باعث بنتا ہے۔ خوشخبری دینے والے سے مراد رسول اللہeکی ذات یا وہ لوگ ہیں جو آپ کی امت میں سے (ابلاغ علم میں) آپ کے قائم مقام ہوں گے۔ خوشخبری دیے جانے والے وہ لوگ ہیں جو اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ جس چیز کی خوشخبری دی گئی ہے وہ ہے جنت، جو بیان کردہ صفات سے متصف ہے۔ اس خوشخبری کے باعث اور سبب سے مراد ایمان اور عمل صالح ہیں۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر اس خوشخبری کے حصول کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ سب سے بڑی خوشخبری ہے جو بہترین اسباب کے ذریعے سے افضل ترین ہستی کی زبان مبارک سے دی گئی ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو خوشخبری دینا اعمال صالحہ اور ان کے ثمرات کا ذکر کر کے ان میں نشاط پیدا کرنا مستحب ہے کیونکہ اس طرح اعمال صالحہ آسان ہو جاتے ہیں۔ سب سے بڑی بشارت جو انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح کی توفیق ہے۔ پس یہ اولین بشارت اور اس کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد دوسری بشارت وہ ہے جو موت کے وقت اسے حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ بشارت ہے جو نعمتوں سے بھرپور دائمی جنت میں پہنچ کر اسے حاصل ہو گی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرتے ہیں۔
آیت: 26 - 27
{إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (26) الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (27)}
بلاشبہ اللہ نہیں شرماتا اس بات سے کہ بیان کرے مثال کوئی سی بھی، مچھر کییا اس چیز کی جو (عظمت یا حقارت میں) اس سے بڑھ کر ہو، پس لیکن ایمان والے تو وہ جانتے ہیں کہ بلاشبہ وہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے،اورلیکن جو لوگ کافر ہوئے تووہ کہتے ہیں کیا ارادہ کیا اللہ نے اس مثال سے؟ گمراہ کرتا ہے اللہ اس سےبہتوں کو اور ہدایت دیتا ہے اس سے بہتوں کو اور نہیں گمراہ کرتا اس سے مگر فاسقوں ہی کو(26) وہ جو توڑتے ہیں عہد اللہ کا بعد اس کے پختہ کر لینے کے اور کاٹتے ہیںاس چیز کوکہ حکم دیا ہے اللہ نے اس کی بابت یہ کہ ملایا جائے (اس کو) اور فساد کرتے ہیں زمین میں،یہی لوگ ہیں خسارہ اٹھانے والے(27)
{26} يقول تعالى: {إن الله لا يستحيي أن يضرب مثلاً ما}؛ أيْ: أيُّ مثل كان {بعوضة فما فوقها}؛ لاشتمال الأمثال على الحكمة وإيضاح الحق، والله لا يستحيي من الحق، وكأنّ في هذا جواباً لمن أنكر ضرب الأمثال في الأشياء الحقيرة، واعترض على الله في ذلك؛ فليس في ذلك محل اعتراض، بل هو من تعليم الله لعباده ورحمته بهم، فيجب أن تتلقى بالقبول والشكر، ولهذا قال: {فأما الذين آمنوا فيعلمون أنه الحق من ربهم}؛ فيفهمونها ويتفكرون فيها، فإن علموا ما اشتملت عليه على وجه التفصيل ازداد بذلك علمهم وإيمانهم، وإلا علموا أنها حق، وما اشتملت عليه حق، وإن خفي عليهم وجه الحق فيها، لعلمهم بأن الله لم يضربها عبثاً بل لحكمة بالغة ونعمة سابغة، {وأما الذين كفروا فيقولون ماذا أراد الله بهذا مثلاً}؛ فيعترضون ويتحيرون فيزدادون كفراً إلى كفرهم كما ازداد المؤمنون إيماناً على إيمانهم؛ ولهذا قال: {يضل به كثيراً ويهدي به كثيراً}؛ فهذه حال المؤمنين والكافرين عند نزول الآيات القرآنية، قال تعالى: {وإذا ما أنزلت سورة فمنهم من يقول أيكم زادته هذه إيماناً، فأما الذين آمنوا فزادتهم إيماناً وهم يستبشرون. وأما الذين في قلوبهم مرض فزادتهم رجساً إلى رجسهم وماتوا وهم كافرون}؛ فلا أعظم نعمة على العباد من نزول الآيات القرآنية، ومع هذا تكون لقوم محنة وحيرة وضلالة وزيادة شر إلى شرهم، ولقوم منحة ورحمة وزيادة خير إلى خيرهم، فسبحان من فاوت بين عباده، وانفرد بالهداية والإضلال. ثم ذكر حكمته وعدله في إضلاله من يضل ؛ فقال: {وما يضل به إلا الفاسقين}؛ أي: الخارجين عن طاعة الله المعاندين لرسل الله الذين صار الفسق وصفهم؛ فلا يبغون به بدلاً، فاقتضت حكمته تعالى إضلالهم؛ لعدم صلاحيتهم للهدى، كما اقتضى فضله وحكمته هداية من اتصف بالإيمان وتحلى بالأعمال الصالحة. والفسق نوعان: نوع مخرج من الدين وهو الفسق المقتضي للخروج من الإيمان كالمذكور في هذه الآية ونحوها، ونوع غير مخرج من الإيمان كما في قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ... }؛ الآية.
[26] ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا ﴾’’اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی سی بھی مثال بیان کرے‘‘ خواہ وہ کسی قسم کی مثال ہو ﴿بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا﴾ ’’مچھر کی ہو یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہو‘‘ کیونکہ مثال حکمت اور ایضاح حق پر مبنی ہوتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ حق سے نہیں شرماتا۔ اس آیت کریمہ میں گویا اس شخص کو جواب دیا گیا ہے جو معمولی اور حقیر اشیاء کی مثال دینے کا منکر ہے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتا ہے، پس یہ اعتراض کا مقام نہیں بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو تعلیم دینا اور ان کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اسے شکر کرتے ہوئے قبول کیا جائے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْ٘حَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ﴾ ’’پس وہ لوگ جو ایمان لائے تو وہ جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے‘‘ پس وہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ پس اگر انھیں اس کے مشمولات کا تفصیلی علم حاصل ہو جاتا ہے تو ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ورنہ انھیں معلوم ہے کہ یہ حق ہے اور حق باتوں پر ہی مشتمل ہے اور اگر اس میں حق کا پہلو ان پر مخفی رہے تب بھی انھیںیقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بے فائدہ بیان نہیں فرمایا، بلکہ اس میںیقینا کوئی حکمت بالغہ اور نعمت کاملہ مضمر ہے۔ ﴿ وَاَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰؔذَا مَثَلًا﴾ ’’لیکن کافر لوگ، تو وہ کہتے ہیں، اللہ نے اس مثال سے کیا چاہا ہے؟‘‘ یعنی کافر حیران ہو کر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے کفر میں اور اضافہ کر لیتے ہیں جیسے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاوَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا﴾ ’’وہ اس سے بہتوں کو گمراہ کرتا اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے‘‘ پس آیات قرآن کے نزول کے وقت یہ اہل ایمان اور کفار کا حال ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے: ﴿ وَاِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰؔذِهٖۤ اِیْمَانًا١ۚ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّهُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ۠۰۰ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَهُمْ كٰفِرُوْنَ﴾ (التوبہ : 9؍125،124) ’’جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو ان میں سے بعض تمسخر کے طور پر کہتے ہیں اس سورت نے کس کا ایمان زیادہ کیا ہے؟ جو لوگ ایمان لائے ان کا ایمان تو اس سورت نے زیادہ کیا اور وہ خوش ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے تو اس سورت نے ان کی گندگی میں گندگی کو اور زیادہ کر دیا اور وہ کفر کی حالت ہی میں مر گئے۔‘‘ پس بندوں پر قرآنی آیات کے نزول سے بڑھ کر اور کوئی نعمت نہیں۔ اس کے باوجود یہ قرآنی آیات کچھ لوگوں کے لیے آزمائش، حیرت اور گمراہی اور ان کے شر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور کچھ لوگوں کے لیے انعام، رحمت اور ان کی بھلائیوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کے درمیان تفاوت قائم کیا۔ صرف وہی ہے جو ہدایت سے نوازتا ہے اور وہی ہے جو گمراہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس عدل و حکمت کا ذکر کیا ہے جو اس شخص کی گمراہی میںکارفرما ہوتی ہے جسے وہ گمراہ کرتا ہے۔ ﴿ وَمَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْ٘فٰسِقِیْنَ﴾ یعنی وہ صرف ان ہی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے باہر ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے عناد رکھتے ہیں، فسق و فجور ان کا وصف بن گیا ہے اور وہ اس وصف کو بدلنا نہیں چاہتے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے فضل کا یہ تقاضا ہوا کہ وہ ان کو گمراہی میں مبتلا کرے کیونکہ ان میں ہدایت کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جیسے اس کی حکمت اور اس کا فضل اس شخص کی ہدایت کا تقاضا کرتے ہیں جو ایمان سے متصف اور اعمال صالحہ سے مزین ہو۔ فسق کی دو اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جو انسان کو دائرۂ اسلام ہی سے خارج کر دیتی ہے۔ فسق کییہ قسم ایمان سے خارج ہونے کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ اس آیت میں اور اس قسم کی دیگر آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ فسق کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو دائرہ ایمان سے خارج نہیں کرتی جیسا کہ اس آیت کریمہ میں وارد ہوا ہے :﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا﴾ (الحجرات : 49؍6) ’’اے ایمان والو! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ نے فاسقوں کا وصف بیان کیا۔
{27} {الذين ينقضون عهد الله من بعد ميثاقه}؛ وهذا يعم العهد الذي بينهم وبين ربهم ، والذي بينهم وبين الخلق ، الذي أكده عليهم بالمواثيق الثقيلة والإلزامات، فلا يبالون بتلك المواثيق، بل ينقضونها، ويتركون أوامره، ويرتكبون نواهيه، وينقضون العهود التي بينهم وبين الخلق {ويقطعون ما أمر الله به أن يوصل}؛ وهذا يدخل فيه أشياء كثيرة، فإن الله أمرنا أن نصل ما بيننا وبينه بالإيمان به والقيام بعبوديته، وما بيننا وبين رسوله بالإيمان به ومحبته وتعزيره والقيام بحقوقه، وما بيننا وبين الوالدين والأقارب والأصحاب وسائر الخلق بالقيام بحقوقهم التي أمر الله أن نصلها، فأما المؤمنون فوصلوا ما أمر الله به أن يوصل من هذه الحقوق، وقاموا بها أتم القيام؛ وأما الفاسقون فقطعوها ونبذوها وراء ظهورهم معتاضين عنها بالفسق والقطيعة والعمل بالمعاصي وهو الإفساد في الأرض، {فأولئك}؛ أي: من هذه صفته {هم الخاسرون}؛ في الدنيا والآخرة، فحصر الخسارة فيهم؛ لأن خسرانهم عام في كل أحوالهم ليس لهم نوع من الربح، لأن كل عمل صالح شرطه الإيمان، فمن لا إيمان له؛ لا عمل له، وهذا الخسار هو: خسار الكفر، وأما الخسار الذي قد يكون كفراً وقد يكون معصية وقد يكون تفريطاً في ترك مستحب، المذكور في قوله تعالى: {إن الإنسان لفي خسر}؛ فهذا عام لكل مخلوق إلا من اتصف بالإيمان والعمل الصالح والتواصي بالحق والتواصي بالصبر، وحقيقته فوات الخير الذي كان العبد بصدد تحصيله وهو تحت إمكانه.
[27] فرمایا : ﴿ الَّذِیْنَیَنْقُ٘ضُ٘وْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ﴾ ’’وہ جو اللہ کے عہد کو اس کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں‘‘ عہد کا لفظ عام ہے، اس سے مراد وہ عہد بھی ہے جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے اور اس کا اطلاق اس عہد پر بھی ہوتا ہے جو انسان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہیں۔ اللہ نے عہد کے پورا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ کافر ان عہدوں کی پروا نہیں کرتے بلکہ وہ ان کو توڑتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرتے ہیں اور اس کے نواہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور وہ ان معاہدوں کا بھی پاس نہیں کرتے جو ان کے درمیان آپس میں ہوتے ہیں۔ ﴿ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ﴾ ’’اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے‘‘ اس میں بہت سی چیزیں داخل ہیں: اوّلاً : اللہ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس تعلق کو جوڑیں جو ہمارے اور اللہ کے درمیان ہے (اس کی صورت یہ ہے کہ ہم) اللہ پر ایمان لائیں اور اس کی عبادت کریں۔ ثانیاً : ہمارے اور اس کے رسول کے درمیان جو تعلق ہے، اسے قائم کریں،یعنی اس پر ایمان لائیں، اس سے محبت رکھیں، اس کی مدد کریں اور اس کے تمام حقوق ادا کریں (رسول کی مکمل اطاعت کریں۔) ثالثاً : وہ تعلق ہے جو ہمارے اور ہمارے والدین، عزیز و اقارب اور دوست احباب اور تمام مخلوق کے درمیان ہے، ان سب کے حقوق کی ادائیگی بھی اس تعلق کے جوڑنے میں شامل ہے جس کا حکم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ اہل ایمان ان تمام رشتوں، حقوق اور تعلقات کو جوڑے رکھتے ہیں جن کو جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے اور ان حقوق کو بہترین طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ رہے اہل فسق تو وہ ان رشتوں کو توڑتے ہیں اور ان کو اپنی پیٹھ پیچھے پھینک کر (ان کے تقدس کا پاس نہیں کرتے) اس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، قطع رحمی سے کام لیتے ہیں اور گناہوں کے کام کرتے ہیں اور یہی زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ﴾ یعنییہی لوگ جو اس صفت سے متصف ہیں ﴿ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾ دنیا و آخرت میں خسارے میں پڑنے والے ہیں۔ خسارے کو ان فاسقین میں اس لیے محصور و محدود رکھا کیونکہ ان کا خسارہ ان کے تمام احوال میں عام ہے۔ ان کے نصیب میں کسی قسم کا کوئی نفع نہیں، کیونکہ ہر نیک کام کے مقبول ہونے کے لیے ایمان شرط ہے۔ پس جو ایمان سے محروم ہے، اس کے عمل کا کوئی وزن اور اعتبار نہیں،یہ خسارہ کفر کا خسارہ ہے۔ رہا وہ خسارہ جو کبھی کفر ہوتا ہے، کبھی گناہ اور معصیت کے زمرے میں اور کبھی مستحب امور کو ترک کرنے کی کوتاہی کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مذکور ہے ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ﴾ (العصر : 103؍2) ’’بے شک انسان ضرور گھاٹے میں ہے۔‘‘ اس خسارے میںتمام انسان داخل ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان اور عمل صالح کی صفات، ایک دوسرے کو حق کی وصیت کرنے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی خوبیوں سے متصف ہیں، نیز بھلائی سے محرومی کی حقیقت سے بھی وہ آشنا ہوتے ہیں، جس کو بندہ حاصل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور اس کا حصول اس کے امکان میں ہوتا ہے۔
آیت: 28
{كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (28)}.
کیسے کفر کرتے ہو تم ساتھ اللہ کے؟حالانکہ تھے تم مردے، پس زندہ کیا اس نے تمھیں، پھر وہی موت دے گا تمھیں، پھر وہی زندہ کرے گا تمھیں، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے(28)
{28} هذا استفهام بمعنى التعجب والتوبيخ والإنكار؛ أي: كيف يحصل منكم الكفر بالله الذي خلقكم من العدم، وأنعم عليكم بأصناف النعم، ثم يميتكم عند استكمال آجالكم، ويجازيكم في القبور، ثم يحييكم بعد البعث والنشور، ثم إليه ترجعون فيجازيكم الجزاء الأوفى، فإذا كنتم في تصرفه وتدبيره وبره وتحت أوامره الدينية، وبعد ذلك تحت دينه الجزائي أَفَيَليق بكم أن تكفروا به؟ وهل هذا إلا جهل عظيم وسفه كبير ؟ بل الذي يليق بكم أن تتقوه وتشكروه، وتؤمنوا به ، وتخافوا عذابه، وترجوا ثوابه.
[28] اس آیت میں استفہام تعجب، زجر و توبیخ اور انکار کے معنی میں ہے۔ یعنی تم کیسے اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہو جو تمھیں عدم میں سے وجود میں لایا اور اس نے تمھیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا پھر وہ تمھارا وقت پورا ہونے پر تمھیں موت دے گا اور قبروں کے اندر تمھیں جزا دے گا پھر قیامت کے برپا ہونے پر تمھیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمھیں تمھارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ پس جب تم اللہ تعالیٰ کے تصرف میں ہو، اس کی تدبیر اور اس کے احسان کے تحت زندگی بسر کر رہے ہو، اور تم (پہلے) اس کے احکام دینیہ اور اس کے بعد (آخرت میں) اس کے قانونِ جزا و سزا کے تحت آتے ہو۔ تب کیا تمھیںیہ لائق ہے کہ تم اس کا انکار کرو؟ کیا تمھارا یہ رویہ ایک بڑی جہالت اور ایک بڑی حماقت کے سوا کچھ اور ہے؟ اس کے برعکس تمھارے لیے مناسب تو یہ تھا کہ تم اس سے ڈرتے، اس کا شکر ادا کرتے، اس پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے خوف کھاتے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے۔
آیت: 29 - 0
{هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا}.
وہی ہے (اللہ) جس نے پیدا کیا تمھارے لیے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب، پھر متوجہ ہوا طرف آسمان کی،پس ٹھیک کرکے بنا دیا ان کو سات آسمان اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والے ہے(29)
{29} أي: خلق لكم برًّا بكم ورحمة جميع ما على الأرض للانتفاع والاستمتاع والاعتبار. وفي هذه الآية الكريمة دليل على أن الأصل في الأشياء الإباحة والطهارة؛ لأنها سيقت في معرض الامتنان، يخرج بذلك الخبائث فإن تحريمها أيضاً يؤخذ من فحوى الآية، وبيان المقصود منها، وأنه خلقها لنفعنا، فما فيه ضرر؛ فهو خارج من ذلك، ومن تمام نعمته منعنا من الخبائث تنزيهاً لنا؛ وقوله: {ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (29)}. «استوى»: ترد في القرآن على ثلاثة معانٍ: فتارة لا تُعدَّى بالحرف فيكون معناها: الكمال والتمام، كما في قوله عن موسى: {ولما بلغ أشده واستوى}؛ وتارة تكون بمعنى علا وارتفع، وذلك إذا عديت «بعلى» كقوله تعالى: {الرحمن على العرش استوى} ؛ {لتستووا على ظهوره}؛ وتارة تكون بمعنى قصد كما إذا عُدِيت «بإلى» كما في هذه الآية، أي: لما خلق تعالى الأرض قصد إلى خلق السماوات فسواهن سبع سماوات فخلقها وأحكمها وأتقنها وهو بكل شيء عليم، فيعلم ما يلج في الأرض وما يخرج منها، وما ينزل من السماء وما يعرج فيها، ويعلم ما تسرون وما تعلنون، يعلم السر وأخفى. وكثيراً ما يقرن بين خلقه وإثبات علمه كما في هذه الآية وكما في قوله تعالى: {ألا يعلم من خلق وهو اللطيف الخبير}؛ لأن خلقه للمخلوقات أدل دليل على علمه وحكمته وقدرته.
[29] ﴿هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ ’’وہی ہے جس نے پیدا کیا تمھارے واسطے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب‘‘ یعنی اس نے تم پر احسان اور رحم کرتے ہوئے تمھارے فائدے، تمھارے تمتع اور تمھاری عبرت کے لیے زمین کی تمام موجودات کو پیدا کیا ہے۔ یہ آیت کریمہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام اشیاء میں اصل، اباحت اور طہارت ہے۔ (یعنی ہر چیز جائز اور پاک ہے) کیونکہیہ آیت احسان جتلانے کے سیاق میں ہے۔ اس جواز سے تمام ناپاک چیزیں نکل جاتی ہیں، اس لیے کہ ان کی حرمت بھی فحوائے آیت اور بیان مقصود سے ماخوذ ہے۔ نیزیہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء کو ہمارے فائدے کے لیے تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا ان میں سے جس کسی چیز میں کوئی نقصان ہے تو وہ اس اباحت سے خارج ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کاملہ ہے کہ اس نے ہمیں خبائث سے منع کیا تاکہ ہم پاکیزہ رہیں۔ ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰۤؔؔى اِلَى السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’پھر قصد کیا اس نے آسمان کی طرف، سو ٹھیک کر دیا ان کو سات آسمان، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘ کلمہ ’’اِسْتَوٰی‘‘ کے معانی : استویٰ قرآن مجید میں تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ (۱)کبھییہ حرف کے ساتھ مل کر متعدی نہیں ہوتا تب یہ ’’کمال‘‘ اور ’’اتمام‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت موسیٰuکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰی﴾ (القصص : 28؍14) ’’جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور کامل جوان ہوا۔‘‘ (۲)کبھییہ ارتفاع اور بلند ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ ’’عَلٰی‘‘ کے ساتھ متعدی ہو۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہ : 20؍5) ’’رحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘ اور ارشاد ہے: ﴿لِتَسْتَوُوْا عَلَی ظُھُوْرِہٖ﴾ (الزخرف:43؍13) ’’تاکہ تم ان کی پیٹھ پر قرار پکڑو۔‘‘ (۳) اور کبھییہ ’’قصد کرنے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس وقت یہ ’’اِلٰی‘‘ کے ساتھ متعدی ہوتا ہے، جیسا کہ زیر تفسیر آیت میں ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی تو پھر اس نے آسمانوں کی تخلیق کا قصد کیا ﴿ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ﴾ ’’پھر اس نے انھیں ٹھیک سات آسمان بنا دیا‘‘یعنی آسمانوں کو پیدا کیا، ان کو مستحکم اور مضبوط کیا۔ ﴿ وَهُوَ بِكُ٘لِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾ ’’وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘ یعنی ﴿ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْ٘زِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَا ﴾ (الحدید: 57؍4) ’’جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ زمین سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ آسمان میں چڑھتا ہے وہ اسے جانتا ہے۔‘‘ اور ﴿یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ﴾ (النحل: 16؍19) ’’جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو، وہ سب جانتا ہے۔‘‘ اور ﴿یَعْلَمُ السِّرَّوَاَخْفٰی﴾ (طٰہ20؍7) ’’وہ تمام بھیدوں اور چھپی ہوئی چیزوں کا علم رکھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر اپنی قدرتِ تخلیق اور اپنے لیے اثباتِ علم کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا جیسا کہ اس آیت میں اور ایک دوسری آیت میں بیان فرمایا ہے: ﴿اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَھُوَ الَّلطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾ (الملک : 67؍14) ’’کیا وہ نہیں جانتا جس نے پیدا کیا، وہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ کیونکہ مخلوقات کو پیدا کرنا اس کے علم و حکمت اور اس کی قدرت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
آیت: 30 - 34
{وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (30) وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (31) قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ (32) قَالَ يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (33) وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (34)}.
اور (یاد کرو!) جب کہا آپ کے رب نے فرشتوں سے، یقیناً میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ، انھوں نے کہا: کیا بناتا ہے تو اس (زمین) میں اس کو جو فساد کرے گا اس میں اور بہائے گا خون؟ اور ہم تسبیح کرتے ہیں ساتھ تیری تعریف کے اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری۔ کہا اللہ نے :بے شک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے(30)اور سکھلائےاس نے آدم کو نام سب کے سب، پھر پیش کیا ان کواوپر فرشتوں کےاور کہا: خبر دو مجھے ان (چیزوں) کے ناموں کی، اگر ہو تم سچے(31) انھوں نے کہا: پاک ہے تو، نہیں ہے علم ہم کو مگر وہی جو سکھلایا تونے ہم کو،بے شک تو ہی ہے جاننے والا حکمت والا(32)اللہ نے کہا: اے آدم! بتا دے تو ان کو نا م ان چیزوں کے، پس جب بتا دیے اس نے ان کو نام ان کے، تو کہا اللہ نے: کیا نہیں کہا تھا میں نےتم سےکہ بلاشبہ میں جانتا ہوں چھپی باتیں آسمانوں اور زمین کی اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے اور جوتھے تم چھپاتے(33) اور جب کہاہم نے فرشتوں سے، سجدہ کروتم آدم کو! تو سجدہ کیا سب نے سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا اورتکبر کیااور تھا وہ کافروں میں سے(34)
{30} هذا شروع في ابتداء خلق آدم عليه السلام أبي البشر وفضلهِ، وأن الله تعالى حين أراد خلقه أخبر الملائكة بذلك، وأن الله مستخلفه في الأرض، فقالت الملائكة عليهم السلام: أتجعل فيها من يفسد فيها بالمعاصي ويسفك الدماء، وهذا تخصيص بعد تعميم؛ لبيان شدة مفسدة القتل، وهذا بحسب ظنهم أن الخليفةَ المَجْعُول في الأرض سيحْدُثُ منه ذلك، فنزهوا الباري عن ذلك وعظموه، وأخبروا أنهم قائمون بعبادة الله على وجه خالٍ من المفسدة فقالوا: {ونحن نسبح بحمدك}؛ أي: ننزهك التنزيه اللائق بحمدك وجلالك {ونقدس لك}؛ يحتمل أن معناها ونقدسك؛ فتكون اللام مفيدة للتخصيص والإخلاص، ويحتمل أن يكون: ونقدس لك أنفسنا؛ أي: نطهرها بالأخلاق الجميلة؛ كمحبة الله، وخشيته، وتعظيمه، ونطهرها من الأخلاق الرذيلة {قال}؛ الله للملائكة: {إني أعلم}؛ من هذا الخليفة {ما لا تعلمون}؛ لأن كلامكم بحسب ما ظننتم، وأنا عالم بالظواهر والسرائر، وأعلم أن الخير الحاصل بخلق هذا الخليفة أضعاف أضعاف ما في ضمن ذلك من الشر، فلو لم يكن في ذلك، إلا أن الله تعالى أراد أن يجتبي منهم الأنبياء والصديقين والشهداء والصالحين، ولتظهر آياته للخلق ، ويحصل من العبوديات التي لم تكن تحصل بدون خلق هذا الخليفة كالجهاد وغيره، وليظهر ما كمن في غرائز المكلفين من الخير والشر بالامتحان، وليتبين عدوه من وليه وحزبه من حربه، وليظهر ما كَمُن في نفس إبليس من الشر الذي انطوى عليه واتصف به، فهذه حكم عظيمة يكفي بعضها في ذلك.
[30] ﴿وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ ’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا، میں زمین میں ایک خلیفہ بناؤں گا‘‘ یہ ابوالبشر حضرت آدمuکی تخلیق کی ابتدا اور ان کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق کا ارادہ کیا تو اس نے فرشتوں کو آگاہ کیا اور فرمایا کہ وہ آدم کو زمین کے اندر خلیفہ بنائے گا۔ اس پر تمام فرشتوں نے کہا: ﴿اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا﴾ ’’کیا تو زمین میں اس کو بنائے گا جو اس میں فساد کرے گا‘‘ یعنی گناہوں کا ارتکاب کر کے زمین پر فساد برپا کرے گا ﴿وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ﴾ ’’اور خون بہائے گا‘‘ یہ عموم کے بعدتخصیص ہے اور اس کا مقصد قتل کے مفاسد کی شدت کو بیان کرنا ہے۔ اور یہ فرشتوں کے گمان کے مطابق تھا کہ وہ ہستی جسے زمین میں خلیفہ بنایا جارہا ہے اس کی تخلیق سے زمین کے اندر فساد ظاہر ہو گا، چنانچہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور عظمت بیان کرتے ہوئے عرض کی کہ وہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں جو تمام مفاسد سے پاک ہے۔ چنانچہ انھوں نے کہا: ﴿ وَنَحْنُ نُ٘سَبِّحُ بِحَمْدِكَ﴾ ’’اور ہم تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں تیری خوبیوں کے ساتھ‘‘ یعنی ہم ایسی تنزیہ کے ساتھ تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں جو تیری حمد و جلال کے لائق ہے۔ ﴿وَنُقَدِّسُ لَکَ﴾ اس میں ایک معنی کا احتمال یہ ہے کہ ہم تیری تقدیس بیان کرتے ہیںیعنی (نُقَدِّسُکَ) اس صورت میں لام تخصیص اور اخلاص کا فائدہ دے گا۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس کے معنی ہوں۔ (وَنُقَدِّسُ لَکَ اَنْفُسَنَا) ’’ہم اپنے آپ کو تیرے لیے پاک کرتے ہیں‘‘یعنی ہم اپنے نفوس کو اخلاق جمیلہ جیسے محبت الٰہی، خشیت الٰہی اور تعظیم الٰہی کے ذریعے سے پاک کرتے ہیں اور ہم اپنے نفسوں کو اخلاق رزیلہ سے بھی پاک کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا: ﴿ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ﴾ یعنی میں جانتا ہوں کہ یہ خلیفہکون ہے۔ ﴿مَالَا تَعْلَمُوْنَ﴾ جو تم نہیں جانتے کیونکہ تمھارا کلام تو ظن اور گمان پر مبنی ہے جب کہ میں ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس خلیفہ کی تخلیق سے جو خیر اور بھلائی حاصل ہو گی وہ اس شر سے کئی گنا زیادہ ہے جو اس کی تخلیق میں مضمر ہے اور اس میںیہ بات بھی نہ ہوتی، تب بھی اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ کہ وہ انسانوں میں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کو چنے، اس کی نشانیاں مخلوق پر واضح ہوں اور اس سے عبودیات کیوہ کیفیتیں حاصل ہوں جو اس خلیفہ کی تخلیق کے بغیر حاصل نہ ہو سکتی تھیں، جیسے جہاد وغیرہ ہیں اور امتحان اور آزمائش کے ذریعے سے خیروشر کی وہ قوتیں ظاہر ہوں جو مکلفین کی فطرت میں پوشیدہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں اور دوستوں اور اس کے خلاف جنگ لڑنے والوں اور حزب اللہ کے مابین امتیاز ہو۔ اور ابلیس کا وہ شر ظاہر ہو جو اس کی فطرت میں پوشیدہ ہے اور جس سے وہ متصف ہے۔ تو آدمuکی تخلیق میںیہ حکمتیں ہی اتنی عظیم ہیں کہ ان میں سے چند ایک بھی اس کی تخلیق کے لیے کافی ہیں۔
پھر چونکہ فرشتوں کے قول میں ان کے اس خیال کی طرف اشارہ ہے کہ انھیں اس خلیفہ پر فضیلت حاصل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ فرشتوں پر آدم کی فضیلت کو واضح کر دے، تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آدم کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت اور اس کے علم کو جان لیں۔
{31} فَعَلَّمَ {آدم الأسماء كلَّها}؛ أي: أسماء الأشياء ومن هو مسمى بها، فعلمه الاسم والمُسمَّى؛ أي: الألفاظ والمعاني حتى المصغر من الأسماء والمكبر؛ كالقصعة والقُصيْعَة {ثم عرضهم}؛ أي: عرض المسمَّيَات {على الملائكة}؛ امتحاناً لهم هل يعرفونها أم لا {فقال أنبئوني بأسماء هؤلاء إن كنتم صادقين}؛ في قولكم وظنكم أنكم أفضل من هذا الخليفة.
[31] پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَؔ كُلَّهَا ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آدمuکو تمام چیزوں کے اسماء اور ان کے مسمی کا علم عطا کر دیا۔ پس اس نے اسے اسم اور مسمی دونوں کی تعلیم دی،یعنی الفاظ اور معانی دونوں سکھا دیے۔ یہاں تک کہ اسماء میں سے مکبر اور مصغر کے مابین امتیاز کو بھی واضح کر دیا، مثلاً ’’قَصْعَۃٌ‘‘ (پیالہ) اور ’’قُصَیْعَۃٌ‘‘ (چھوٹا سا پیالہ) ﴿ثُمَّ عَرَضَھُمْ﴾ یعنی پھر ان مسمیات کو پیش کیا ﴿عَلَی الْمَلٰٓىِٕكَةِ﴾ ’’فرشتوں پر‘‘ یعنی فرشتوں کو آزمانے کے لیے کہ آیایہ ان مسمیاتکو پہچانتے ہیںیا نہیں اور فرمایا: ﴿ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ۠ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰؔدِقِیْنَ﴾ اگر تم اپنے اس دعوے اور گمان میں سچے ہو کہ تم اس خلیفہ سے افضل ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتاؤ۔
{32} {قالوا سبحانك}؛ أي ننزهك من الاعتراض منَّا عليك، ومخالفة أمرك {لا علم لنا}؛ بوجه من الوجوه، {إلا ما علمتنا}؛ إياه فضلاً منك وجوداً {إنك أنت العليم الحكيم}؛ العليم الذي أحاط علماً بكل شيء، فلا يغيب عنه ولا يعزب مثقال ذرة في السماوات والأرض ولا أصغر من ذلك ولا أكبر، الحكيم: من له الحكمة التامة التي لا يخرج عنها مخلوق ولا يشذ عنها مأمور، فما خلق شيئاً إلا لحكمة، ولا أمر بشيء إلا لحكمة، والحكمة وضع الشيء في موضعه اللائق به. فأقروا واعترفوا بعلم الله وحكمته وقصورهم عن معرفة أدنى شيء، واعترافهم بفضل الله عليهم وتعليمه إياهم ما لا يعلمون.
[32] ﴿قَالُوْا سُبْحٰنَکَ﴾ فرشتوں نے جواب دیا کہ ہم نے تجھ پر جو اعتراض کیا تھا اور تیرے حکم کی مخالفت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اس سے تجھے منزہ اور پاک تسلیم کرتے ہیں ﴿لاَ عِلْمَ لَنَا﴾ یعنی ہمیں کسی بھی پہلو سے کوئی علم نہیں ﴿اِلَّامَا عَلَّمْتَنَا﴾ سوائے اس علم کے جو تو نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں عطا کیا ہے۔ ﴿اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ﴾ (العلیم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جس نے اپنے علم کے ذریعے سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہو۔ اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہ ہو آسمانوں اور زمین میں کوئی ذرہ بھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہ ہو، اس ذرے سے بڑییا اس سے چھوٹی کوئی چیز بھی اس سے چھپی ہوئی نہ ہو۔ (الحکیم) اس ہستی کو کہا جاتا ہے جو کامل حکمت کی مالک ہو۔ کوئی مخلوق اس کی حکمت سے باہر نہ ہو اور کوئی مامور اس حکمت سے علیحدہ نہ ہو۔ پس اللہ تعالی نے کوئی چیز ایسی پیدا نہیںکی جس میں کوئی حکمت نہ ہو اور نہ کوئی ایسا حکم دیا ہے جو حکمت سے خالی ہو۔ حکمت سے مراد ہے کسی چیز کو اس کے اس مقام پر رکھنا جو اس کے لائق ہے۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور علم کا اقرار اور اعتراف کیا اور اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ وہ ایک ادنی سی چیز کی معرفت سے بھی قاصر تھے۔ انھوں نے اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور انھیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہ جانتے تھے۔
{33} فحينئذ قال الله: {يا آدم أنبئهم بأسمائهم}؛ أي: أسماء المسميات التي عرضها الله على الملائكة؛ فعجزوا عنها {فلما أنبأهم بأسمائهم}؛ تبين للملائكة فضل آدم عليهم، وحكمة الباري وعلمه في استخلاف هذا الخليفة {قال ألم أقل لكم إني أعلم غيب السموات والأرض} وهو ما غاب عنا فلم نشاهده، فإذا كان عالماً بالغيب، فالشهادة من باب أولى {وأعلم ما تبدون}؛ أي: تظهرون {وما كنتم تكتمون}.
[33] پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ﴾ ’’اے آدم، ان کو ان کے ناموں کی خبر دو‘‘ یعنی ان تمام مسمیات کے اسماء کے بارے میں آگاہ کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے پیش کیا تھا اور فرشتے ان کے نام بتانے سے قاصر رہے ﴿ فَلَمَّاۤ اَنْۢبـَاَ٘هُمْ ﴾ جب آدمuنے فرشتوں کو ان ناموں سے آگاہ کیا تو ان پر آدم کی فضیلت ظاہر اور اس کو خلیفہ بنانے میں باری تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ثابت ہو گیا ﴿ قَالَ اَلَمْ اَ٘قُ٘لْ لَّـكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’اللہ نے فرمایا، کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو جانتا ہوں۔‘‘ غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے اوجھل ہو اور ہم اس کا مشاہدہ نہ کر سکتے ہوں۔ جب وہ غائب چیزوں کا علم رکھتا ہے تو مشہودات کو وہ بدرجہ اولیٰ جانتا ہے ﴿وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ﴾ یعنی میں جانتا ہوں اس چیز کو جسے تم ظاہر کرتے ہو ﴿ وَمَا كُنْتُمْ تَكْ٘تُ٘مُوْنَ ﴾ اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔
{34} ثم أمرهم تعالى بالسجود لآدم إكراماً له وتعظيماً وعبودية لله تعالى؛ فامتثلوا أمر الله، وبادروا كلهم بالسجود، {إلا إبليس أبى} امتنع عن السجود، واستكبر عن أمر الله، وعلى آدم قال: {أأسجد لمن خلقت طيناً} وهذا الإباء منه، والاستكبار نتيجة الكفر الذي هو منطوٍ عليه، فتبينت حينئذ عداوته لله ولآدم وكفره واستكباره. وفي هذه الآيات من العِبَر والآيات إثبات الكلام لله تعالى، وأنه لم يزل متكلماً يقول ما شاء، ويتكلم بما شاء وأنه عليم حكيم، وفيه أن العبد إذا خفيت عليه حكمة الله في بعض المخلوقات، والمأمورات؛ فالواجب عليه التسليم واتهامُ عقله والإقرار لله بالحكمة؛ وفيه اعتناء الله بشأن الملائكة وإحسانه بهم بتعليمهم ما جهلوا، وتنبيههم على ما لم يعلموه. وفيه فضيلة العلم من وجوه: منها: أن الله تعرف لملائكته بعلمه وحكمته. ومنها: أن الله عرفهم فضل آدم بالعلم، وأنه أفضل صفة تكون في العبد. ومنها: أن الله أمرهم بالسجود لآدم إكراماً له لمَّا بانَ فضل علمه. ومنها: أن الامتحان للغير إذا عجزوا عما امتحنوا به ثم عرفه صاحب الفضيلة فهو أكمل مما عرفه ابتداء. ومنها: الاعتبار بحال أبوي الإنس والجن وبيان فضل آدم وأفضال الله عليه وعداوة إبليس له، إلى غير ذلك من العبر.
[34] پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدمuکے اکرام و تعظیم اور اللہ تعالی کی عبودیت کے اظہار کے لیے آدمuکے سامنے سجدہ ریز ہوں۔ انھوں نے اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت کی اور تمام فرشتے اسی وقت سجدے میں گر گئے ﴿اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ اَبٰی﴾ سوائے ابلیس کے، اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے اللہ تعالی کے حکم کے سامنے تکبر کا اظہار کیا اور آدمuسے اپنے آپ کو بڑا سمجھا۔ اس نے تکبر سے کہا: ﴿ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا﴾ (بنی اسرائیل: 17؍61) ’’کیا میں ایسے شخص کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے تخلیق کیا ہے۔‘‘ یہ انکار اور استکبار اس کے اس کفر کا نتیجہ تھا جو اس کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ اور آدمuسے اس کی عداوت ظاہر ہو گئی اور اس کا کفر و استکبار عیاں ہو گیا۔ ان آیات کریمہ سے کچھ نصیحتیں اور کچھ نکات ماخوذ ہوتے ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے لیے کلام کا اثبات، وہ ہمیشہ سے کلام کرتا رہا ہے، وہ جو چاہتا ہے کہتا ہے، وہ جو چاہتا ہے کلام کرتا ہے، وہ علم والا اور حکمت والا ہے۔ (۲)بندے پر جب بعض مخلوقات اور مامورات میں پوشیدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت مخفی رہ جائے تو اس پر سرتسلیم خم کرنا، اپنی عقل کو ناقص ٹھہرانا اوراللہ تعالیٰ کی حکمت کا اقرار کرنا واجب ہے۔ (۳) ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے معاملے کو اہمیت دی، ان پر احسان عظیم فرمایا، جس چیز کے بارے میں وہ جاہل تھے اس کی انھیں تعلیم دی اور جس کا انھیں علم نہ تھا اس پر انھیں متنبہ فرمایا۔ ان آیات میں مندرجہ ذیل وجوہ سے علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ (الف) اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو اپنے علم و حکمت کی معرفت عطا کی۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے ان کو اس حقیقت سے واقف کرایا کہ آدمuکو بربنائے علم فضیلت حاصل ہے اور علم بندے کی افضل ترین صفت ہے۔ (ج) جب آدمuکے علم کی فضیلت واضح اور عیاں ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدمuکے اکرام و تکریم کے لیے اسے سجدہ کریں۔ (د) کسی اور کو کسی امتحان کے ذریعے سے آزمانا جبکہ اس امتحان میں کچھ لوگ پورے نہ اترے ہوں۔ پھر امتحان میں پورا اترنے والے صاحب فضیلت سے یہ امتحان لے تو یہ اس شخص سے زیادہ کامل ہے جس سے ابتدا میں امتحان لیا گیا تھا۔ (ھ) جن و انس کے والدین کے احوال سے عبرت پذیری، آدمuکی فضیلت، اس پر اللہ تعالیٰ کے احسانات اور آدم کے ساتھ ابلیس کی عداوت کا اظہار اور اس جیسی دیگر عبرتیں۔
آیت: 35 - 36
{وَقُلْنَا يَاآدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (35) فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ (36)}.
اور کہا ہم نے: اے آدم! ٹھہر تواور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم دونوں اس میں سے بافراغت جہاں سے چاہو تم، اور مت قریب جانا تم دونوں اس درخت کے،پس تم دونوں ہو جاؤ گے ظالموں سے(35) پس پھسلا دیاان دونوں کو شیطان نے اس سے اور نکلوا دیا اس نے ان کو اُس (آرام و راحت) سے کہ تھے وہ اس میں، اور کہا ہم نے: اترو! (یہاں سے) بعض تمھارا بعض کا دشمن ہے اور تمھارے لیے زمین میں ٹھکا نا ہےاورفائدہ اٹھانا ہے ایک وقت تک(36)
{35} لما خلق الله آدم وفضَّله، أتمَّ نعمته عليه بأن خلق منه زوجة؛ ليسكن إليها ويستأنس بها، وأمرهما بسكنى الجنة والأكل منها رغداً؛ أي: واسعاً هنيئاً {حيث شئتما}؛ أي: من أصناف الثمار والفواكه، وقال الله له: {إن لك أن لا تجوع فيها ولا تعرى، وأنك لا تظمأ فيها ولا تضحى}، {ولا تقربا هذه الشجرة}؛ نوع من أنواع شجر الجنة الله أعلم بها، وإنما نهاهما عنها امتحاناً وابتلاء أو لحكمة غير معلومة لنا، {فتكونا من الظالمين}؛ دل على أن النهي للتحريم؛ لأنه رتب الظلم عليه ؛ فلم يزل عدوهما يوسوس لهما ويزين لهما تناول ما نُهيا عنه حتى أزلهما أي حملهما على الزلل بتزيينه {وقاسمهما}؛ بالله {إني لكما لمن الناصحين}.
[35] ﴿وَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُ٘نْ٘ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَؔكُلَا مِنْهَا رَغَدًا ﴾ ’’ہم نے کہا، اے آدم! رہ تو اور تیری بیوی جنت میں اور کھاؤ تم اس سے خوب سیر ہوکر۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے آدمuکو تخلیق کیا، اس کو فضیلت عطا کی، تو خود اسی میں سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے اس پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس سکون، راحت اور انس حاصل کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو حکم دیا کہ وہ جنت میں رہیں اور جنت میں مزے سے بے روک ٹوک کھائیں پئیں۔ ﴿ حَیْثُ شِئْتُمَا﴾ یعنی جہاں سے چاہو، مختلف اصناف کے پھل اور میوے کھاؤ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْهَا وَلَا تَعْرٰىۙ۰۰وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَلَا تَضْحٰؔى ﴾ (طٰہ : 20؍118۔119) ’’یہاں تجھے یہ آسانی حاصل ہو گی کہ تو اس میں بھوکا رہے گا نہ عریاں ہو گا۔ نہ تو اس میں پیاسا ہو گا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔‘‘ ﴿وَلَا تَقْرَبَا ھَذِہٖ الشَّجَرَۃَ﴾ ’’اور دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا‘‘ یہ جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے۔ واللہ اعلم۔ آدم اور اس کی بیوی کو صرف ان کی آزمائش اور امتحان کے لیےیا کسی ایسی حکمت کے تحت اس درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا جو ہمارے علم میں نہیں۔ ﴿فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ ’’پس تم بے انصافوں میں سے ہو جاؤ گے‘‘ یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں نہی تحریم کے لیے ہے۔ کیونکہ اس ممانعت پرعمل نہ کرنے کو ظلم کہا ہے۔ ان کا دشمن (ابلیس) ان کے دلوں میں وسوسے ڈالتا رہا اور اس درخت کے پھل کو تناول کرنے کی خوبیوں کو مزین کر کے انھیں اس پھل کو کھا لینے کی ترغیب دیتا رہا حتیٰ کہ وہ انھیں پھسلانے میں کامیاب ہو گیا۔ ابلیس کی تزئین نے ان کو اس لغزش پر آمادہ کیا۔ ﴿وَقَاسَمَھُمَآ اِنِّیْ لَکُمَا لَمِنَ النّٰصِحِیْنَ﴾ (الاعراف : 7؍21) ’’اس نے ان دونوں کے سامنے قسم کھائی کہ میں تمھارا خیر خواہ ہوں۔‘‘
{36} فاغترا به وأطاعاه؛ فأخرجهما مما كانا فيه من النعيم، والرغد، وأُهْبِطوا إلى دار التعب والنصب والمجاهدة {بعضكم لبعض عدو}؛ أي: آدم وذريته أعداء لإبليس وذريته. ومن المعلوم أن العدو يَجِدُّ ويجتهد في ضرر عدوه وإيصال الشر إليه بكل طريق وحرمانه الخير بكل طريق، ففي ضمن هذا تحذير بني آدم من الشيطان كما قال تعالى: {إنّ الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدواً إنما يدعو حزبه ليكونوا من أصحاب السعير} {أفتتخذونه وذريته أولياء من دوني وهم لكم عدو بئس للظالمين بدلاً} ثم ذكر منتهى الإهباط فقال: {ولكم في الأرض مستقر}؛ أي: مسكن وقرار {ومتاعٌ إلى حين}؛ انقضاء آجالكم ثم تنتقلون منها للدار التي خُلقتم لها وخلقت لكم، ففيها أن مدة هذه الحياة مؤقتة عارضة ليست مسكناً حقيقياً، وإنما هي معبر يُتزوَّد منها لتلك الدار، ولا تُعمَّر للاستقرار.
[36] چنانچہ وہ دونوں اس کی باتوں میں آ کر دھوکا کھا گئے اور اس کے پیچھے لگ گئے اور اس نے ان دونوں کو نعمتوں اور آسائشوں کے گھر سے نکال باہر کیا اور ان کو دکھوں، تکلیفوں اور مجاہدے کی سرزمین پر اتار دیا گیا۔ ﴿بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ﴾ ’’تمھارا ایک، دوسرے کا دشمن ہے۔‘‘ یعنی ابلیس اور اس کی ذریت، آدم اور اولاد آدم کی دشمن ہوگی اور ہمیں معلوم ہے کہ دشمن اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ہر طریقے سے اس کی برائی چاہتا ہے اور ہر طریقے سے اسے بھلائی سے محروم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ اس ضمن میں بنی آدم کو شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اِنَّ الشَّ٘یْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّؔخِذُوْهُ عَدُوًّا١ؕ اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَهٗ لِیَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰؔبِ السَّعِیْرِ﴾ (فاطر:35؍6) ’’بے شک شیطان تمھارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو وہ تو اپنی جماعت کو بلاتا ہے تاکہ وہ جہنم والے بن جائیں۔‘‘ ﴿اَفَتَتَّؔخِذُوْنَهٗ وَذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ١ؕ بِئْ٘سَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا﴾ (الکہف : 18؍50) ’’کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا اپنا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں؟ اور ظالموں کے لیے بہت ہی برا بدلہ ہے۔‘‘ پھر انھیں زمین پر اتارے جانے کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّؔ﴾ یعنی زمین کے اندر تمھارا مسکن اور ٹھکانا ہو گا۔ ﴿وَمَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ﴾ تمھارا وقت پورا ہونے تک (تم نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے) پھر تم اس گھر میں منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تمھیں اور جسے تمھارے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں واضح ہے کہ اس زندگی کی مدت عارضی اور ایک خاص وقت تک کے لیے ہے، یہ دنیا حقیقی مسکن نہیں ہے۔ یہ تو ایک راہ گزر ہے جہاں سے اگلے جہان کے لیے زاد راہ حاصل کیا جاتا ہے (دوران سفر) اس راہ گزر میں مستقل ٹھکانا تعمیر نہیں کیا جاتا۔
آیت: 37
[{فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (37)}].
پس سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند کلمے، پس متوجہ ہوا (اللہ مہربانی کے ساتھ) اس پر، بے شک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا،رحم کرنے والا(37)
{37} {فتلقّى آدم}؛ أي: تلقف وتلقن وألهمه الله {من ربه كلمات}؛ وهي قوله: {ربنا ظلمنا أنفسنا ... }؛ الآية؛ فاعترف بذنبه، وسأل الله مغفرته {فتاب}؛ الله، {عليه}؛ ورحمه {إنه هو التواب}؛ لمن تاب إليه وأناب. وتوبته نوعان: توفيقه أولاً. ثم قبوله للتوبة إذا اجتمعت شروطها ثانياً. {الرحيم}؛ بعباده، ومن رحمته بهم أن وفقهم للتوبة وعفا عنهم وصفح.
[37] آدمuنے (کچھ کلمات) سیکھ لیے اور یاد کر لیے، اللہ تعالیٰ نے یہ کلمات آدم کو الہام کیے تھے۔ وہ کلمات یہ تھے ﴿ رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الاعراف: 7؍23) ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘ آدمuنے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کا سوال کیا۔ ﴿ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے آدمuکی توبہ قبول کر لی اور اس پر رحم فرمایا۔ جو کوئی توبہ کرتا اور اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی طرف رجوع کرنے کی دو قسمیں ہیں: (۱) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ بندے کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے۔ (۲) پھر جب توبہ کی تمام شرائط پوری ہو جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کر لیتا ہے۔ ﴿الرَّحِیْمُ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ ان پر اس کی رحمت یہ ہے کہ اس نے انھیں توبہ کی توفیق سے نوازا اور ان کو معاف کر کے ان سے درگزر فرمایا۔
آیت: 38 - 39
{قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (38) وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (39)}.
ہم نے کہا:اترو! (یہاں سے) تم سب، پھر اگر آئے تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت، تو جس نے پیروی کی میری ہدایت کی، پس نہ کوئی خوف ہو گاان پر اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے(38) اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیتوں کو، یہ لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(39)
{38} كرر الإهباط؛ ليرتب عليه ما ذكر، وهو قوله: {فإما يأتينكم مني هدى}؛ أي: أيُّ وقت وزمان جاءكم مني يا معشرَ الثقلين هدى؛ أي: رسول وكتاب يهديكم لما يقربكم مني، ويدنيكم من رضائي فمن تبع هداي منكم، بأن آمن برسلي، وكتبي واهتدى بهم، وذلك بتصديق جميع أخبار الرسل والكتب والامتثال للأمر والاجتناب للنهي، {فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ وفي الآية الأخرى، {فمن اتبع هداي فلا يضل ولا يشقى}. فرتب على اتباع هداه أربعة أشياء: نفي الخوف والحزن والفرق بينهما: أن المكروه إن كان قد مضى أحدث الحزن وإن كان منتظراً أحدث الخوف، فنفاهما عمن اتبع الهدى وإذا انتفيا حصل ضدهما وهو الأمن التام.
[38] ﴿قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا﴾ ’’ہم نے کہا اترو اس سے اکٹھے۔‘‘ زمین پر اتارے جانے کا مکرر ذکر کیا تاکہ اس پر وہ حکم مرتب کیا جائے جس کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے۔ ﴿ فَاِمَّا یَ٘اْتِیَنَّـكُمْ مِّؔنِّیْ هُدًى ﴾ یعنی اے جن و انس! اگر تمھارے پاس میری طرف سے کسی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہدایت پہنچے، یعنی کوئی رسول اور کوئی کتاب آئے جو اس راستے کی طرف تمھاری راہ نمائی کرے جوتمھیں میرا تقرب عطا کرے، میرے اور میری رضا کے قریب کرے۔ پس جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرتے ہوئے میرے رسولوں اور میری کتابوں پر ایمان لائے اور ان رسولوں کو راہنما بنائے۔۔۔ اور اس سے مراد ہے کہ وہ تمام انبیاء و مرسلین اور کتب وحی کی دی ہوئی خبر کی تصدیق کرے۔ اللہ کے اوامر پر عمل کرے اور اس کی منہیات سے اجتناب کرے۔ تب اس صورت میں ﴿فَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنُ﴾ ’’ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر آتا ہے۔ ﴿فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلاَ یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی﴾(طہ : 20؍123) ’’جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ تو گمراہ ہو گا نہ بدبختی میں پڑے گا۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی پر چار چیزیں مرتب ہوتی ہیں۔ بندے سے حزن و خوف کی نفی ۔ حزن اور خوف میں فرق یہ ہے کہ اگر غیر پسندیدہ امر گزر چکا ہو تو وہ دل میں حزن کا باعث ہوتا ہے اور اگر وہ اس غیر پسندیدہ امر کا منتظر ہو تو یہ خوف پیدا کرتا ہے۔ پس جس کسی نے ہدایت الٰہی کی پیروی کی اس سے حزن و خوف دور ہوگئے اور جب اس سے حزن و خوف کی نفی ہو گئی تو ان کی ضد ثابت ہو گئی اور وہ ہے ہدایت اور سعادت۔
{39} وكذلك: نفي الضلال والشقاء عمن اتبع هداه، وإذا انتفيا ثبت ضدهما، وهو الهدى والسعادة، فمن اتبع هداه حصل له الأمن والسعادة الدنيوية والأخروية والهدى وانتفى عنه كل مكروه من الخوف والحزن والضلال والشقاء؛ فحصل له المرغوب واندفع عنه المرهوب، وهذا عكس من لم يتبع هداه فكفر به وكذب بآياته؛ فأولئك أصحاب النار، أي: الملازمون لها ملازمة الصاحب لصاحبه، والغريم لغريمه {هم فيها خالدون} لا يخرجون منها ولا يفتر عنهم العذاب ولا هم ينصرون. وفي هذه الآيات، وما أشبهها انقسام الخلق من الجن والإنس إلى أهل السعادة، وأهل الشقاوة، وفيها صفات الفريقين والأعمال الموجبة لذلك، وأن الجن كالإنس في الثواب والعقاب، كما أنهم مثلهم في الأمر والنهي.
[39] لہٰذا جو کوئی بھی اس کی ہدایت کی پیروی کرتا ہے اسے امن، دنیاوی اور اخروی سعادت اور ہدایت حاصل ہوتی ہے اور ہر تکلیف دہ چیزیعنی حزن و خوف اور ضلالت و شقاوت اس سے دور کر دی جاتی ہے۔ ہر مرغوب چیز اسے عطا کر دی جاتی ہے اور خوف زدہ کرنے والی چیز اس سے دور ہٹا دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اس شخص کا معاملہ ہو گا جس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی نہ کی، پس اس کا انکار کیا اور اس کی آیات کو جھٹلایا۔ ﴿ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ﴾ یہی لوگ جہنمی ہیںیعنیجہنم ان کے لیے لازم ہے۔ جیسے ساتھی دوسرے ساتھی سے اور قرض خواہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے۔ ﴿ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’وہ اس جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ کبھی اس سے باہر نہیں نکلیں گے جہنم کا عذاب کبھی ان سے کم نہ ہو گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔ ان آیات کریمہ اور ان جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے تمام جن و انس اہل سعادت اور اہل شقاوت کی اقسام میں منقسم ہیں۔ ان آیات میں دونوں فریقوں کی صفات اور ان اعمال کا ذکر کیا گیا ہے جو سعادت یا شقاوت کے موجب ہیں۔ ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’جن‘‘ ثواب و عقاب کے معاملے میں انسانوں کی طرح ہیں جس طرح وہ ان کی مانند امر و نہی کے مکلف ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور اپنے احسانات کا ذکر شروع کیا، فرمایا:
آیت: 40 - 43
{يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (40) وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ (41) وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (42) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (43)}.
اے بنواسرائیل! یاد کرو تم میری نعمت، وہ جوانعام کی میں نے تم پر،اور پورا کرو تم میرا عہد، میں پورا کروں گا تمھارے (ساتھ کیا ہوا) عہد اور مجھ ہی سے ڈرو(40) اور ایمان لاؤ اس پر جومیں نے نازل کیا، جب کہ وہ تصدیق کرنے والا ہےاس (کتاب) کی جو تمھارے پاس ہے اورنہ ہو تم پہلے کفر کرنے والے، ساتھ اس کے اور نہ بیچو تم میری آیتوں کو قیمت تھوڑی میں، اورمجھ ہی سے ڈرو(41) اور نہ خلط ملط کرو حق کو ساتھ باطل کے اور مت چھپاؤحق کو درآں حالیکہ تم جانتے ہو(42) اور قائم کرو نماز اور دو زکاۃ اور رکوع کرو ساتھ رکوع کرنے والوں کے(43)
{40} {يا بني إسرائيل}؛ المراد بإسرائيل: يعقوب عليه السلام، والخطاب مع فِرَق بني إسرائيل، الذين بالمدينة وما حولها ويدخل فيهم من أتى بعدهم، فأمرهم بأمر عام فقال: {اذكروا نعمتي التي أنعمت عليكم}؛ وهو يشمل سائر النعم التي سيذكر في هذه السورة بعضها، والمراد بذكرها بالقلب اعترافاً، وباللسان ثناءً، وبالجوارح باستعمالها فيما يحبه ويرضيه {وأوفوا بعهدي}؛ وهو ما عهده إليهم من الإيمان به، وبرسله، وإقامة شرعه {أوف بعهدكم}؛ وهو المجازاة على ذلك، والمراد بذلك ما ذكره الله في قوله: {ولقد أخذ الله ميثاق بني إسرائيل وبعثنا منهم اثني عشر نقيباً وقال الله إني معكم لئن أقمتم الصلاة وآتيتم الزكاة وآمنتم برسلي}؛ إلى قوله: {فقد ضل سواء السبيل}؛ ثم أمرهم بالسبب الحامل لهم على الوفاء بعهده، وهو الرهبة منه تعالى، وخشيته وحده، فإن من خشيه أوجبت له خشيته امتثال أمره، واجتناب نهيه، ثم أمرهم بالأمر الخاص الذي لا يتم إيمانهم ولا يصح إلا به فقال:
[40] یہاں اسرائیل سے مراد حضرت یعقوبuہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب بنی اسرائیل کے ان گروہوں سے ہے جو مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ اس خطاب میں بعد میں آنے والے اسرائیلی بھی شامل ہیں۔ پس ان کو ایک عام حکم دیا ہے۔ فرمایا: ﴿ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ﴾ ’’میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیں‘‘ ان نعمتوں میں تمام نعمتیں شامل ہیں ان میں سے بعض کا ذکر عنقریب اس سورت میں آئے گا۔ یہاں ان نعمتوں کے یاد کرنے سے مراد دل میں ان نعمتوں کا اعتراف کرنا، زبان سے ان کی تعریف کرنا اور جوارح کے ذریعے سے ان نعمتوں کو ایسی جگہ استعمال کرنا ہے جہاں اللہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔ ﴿ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ ﴾ یعنی اس عہد کو پورا کرو جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا ہے کہ وہ اس پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے اور اس کی شریعت کو قائم کریں گے۔ ﴿ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ ﴾ ’’میں تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں گا‘‘ یہ ان کے عہد کے پورا کرنے کا بدلہ ہے۔ اس عہد سے مراد وہ عہد ہے جس کا اللہ تعالی نے اس آیت میں ذکر کیا ہے: ﴿ وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ١ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا١ؕ وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مَعَكُمْ١ؕ لَىِٕنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰ٘وةَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا لَّاُكَفِّ٘رَنَّ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّـكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْ٘هٰرُ١ۚ فَ٘مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَؔآءَؔ السَّبِیْلِ﴾ (المائدہ : 5؍12) ’’اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور ان میں سے ہم نے بارہ سردار مقرر کر دیے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم کرتے اور زکاۃ دیتے رہو گے میرے رسولوں پر ایمان لاتے اور ان کی عزت و توقیر کرتے رہو گے اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو گے۔ میں تم سے تمھارے گناہ دور کر دوں گا اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، پھر تم میں سے جس نے اس کے بعد کفر کا ارتکاب کیا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا جو وفائے عہد کے حامل ہیںیعنی اس اکیلے سے خوف کھانا اور ڈرنا۔ کیونکہ جو کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ ڈر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے نواہی سے اجتناب کا موجب بنتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خاص امر کا حکم دیا ہے جس کے بغیر ان کا ایمان مکمل ہوتا ہے نہ اس کے بغیر ایمان صحیح۔
{41} {وآمنوا بما أنزلت}؛ وهو: القرآن الذي أنزله على عبده ورسوله محمد - صلى الله عليه وسلم -، فأمرهم بالإيمان به واتباعه، ويستلزم ذلك، الإيمان بمن أنزل عليه، وذكر الداعي لإيمانهم، فقال: {مصدقاً لما معكم}؛ أي: موافقاً له لا مخالفاً ولا مناقضاً، فإذا كان موافقاً لما معكم من الكتب غير مخالف لها فلا مانع لكم من الإيمان به؛ لأنه جاء بما جاءت به المرسلون، فأنتم أولى من آمن به وصدق به؛ لكونكم أهل الكتب والعلم. وأيضاً فإن في قوله: {مصدقاً لما معكم}؛ إشارة إلى أنكم إن لم تؤمنوا به عاد ذلك عليكم بتكذيب ما معكم؛ لأن ما جاء به هو الذي جاء به موسى وعيسى وغيرهما من الأنبياء، فتكذيبكم له تكذيب لما معكم. وأيضاً فإن في الكتب التي بأيديكم صفة هذا النبي الذي جاء بهذا القرآن، والبشارة به، فإن لم تؤمنوا به؛ كذبتم ببعض ما أنزل إليكم، ومن كذب ببعض ما أنزل إليه؛ فقد كذب بجميعه، كما أن من كفر برسولٍ؛ فقد كذب الرسل جميعهم، فلما أمرهم بالإيمان به نهاهم، وحذرهم عن ضده وهو الكفر به فقال: {ولا تكونوا أول كافر به}؛ أي: بالرسول والقرآن، وفي قوله: {أول كافر به}؛ أبلغ من قوله ولا تكفروا به؛ لأنهم إذا كانوا أول كافر به كان فيه مبادرتهم إلى الكفر [به] عكس ما ينبغي منهم، وصار عليهم إثمهم وإثم من اقتدى بهم من بعدهم. ثم ذكر المانع لهم من الإيمان وهو اختيار العرض الأدنى على السعادة الأبدية فقال: {ولا تشتروا بآياتي ثمناً قليلاً}؛ وهو ما يحصل لهم من المناصب والمآكل التي يتوهمون انقطاعها إن آمنوا بالله ورسوله، فاشتروها بآيات الله واستحبوها وآثروها {وإياي}؛ أي: لا غيري، {فاتقون}؛ فإنكم إذا اتقيتم الله وحده أوجبت لكم تقواه تقديم الإيمان بآياته على الثمن القليل، كما أنكم إذا اخترتم الثمن القليل؛ فهو دليل على ترحل التقوى من قلوبكم، ثم قال:
[41] فرمایا: ﴿ وَاٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ ﴾ ’’اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے نازل کیا۔‘‘ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول محمدeپر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ محمدeپر ایمان لائیں اور ان کی اتباع کریں اور آپ پر ایمان لانے اور اتباع کرنے کا حکم اس کتاب پر بھی ایمان لانے کو مستلزم ہے جو آپ پر نازل کی گئی۔ پھر اس داعی کا ذکر کیا جو انھیں ایمان کی طرف بلاتا ہے، فرمایا: ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾ ’’تصدیق کرنے والا ہے ان چیزوں کی جو تمھارے پاس ہیں‘‘یعنییہ (قرآن) ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمھارے پاس ہیںیہ ان کے مخالف ہے نہ مناقض۔ پس جب یہ قرآن ان کتابوں کی موافقت کرتا ہے جو تمھارے پاس ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتا تو پھر تمھارے اس پر ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ کیونکہ محمدeوہی چیز لے کر آئے ہیں جو پہلے رسول لائے تھے۔ لہٰذا تم سب سے زیادہ مستحق ہو کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی تصدیق کرو کیونکہ تم اہل کتاب اور اہل علم ہو۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ﴾ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر تم اس پر ایمان نہیں لاؤ گے تو یہ تکذیب خود تمھاری طرف لوٹے گییعنی تم خود بھی ان کتابوں کے جھٹلانے والے ٹھہرو گے جو تمھارے پاس ہیں، اس لیے کہ یہ پیغمبر بھی وہی چیز لے کر آیا ہے جو حضرت موسیٰ اور عیسیٰ اور دیگر انبیاءoلے کر آئے، لہٰذا تمھارا محمدeکی تکذیب کرنا درحقیقت ان کتابوں کی تکذیب ہے جو تمھارے پاس ہیں۔ نیز اس لیے بھی کہ ان کتابوں میں، جو تمھارے پاس ہیں اس نبی کے اوصاف اور نشانیاں بیان ہوئی ہیں اور اس کی بشارت دی گئی جو یہ قرآن لے کر آیا ہے، اس لیے اگر تم اس پر ایمان نہیں لاتے تو تم نے گویا ان کتابوں کے بعض احکام کو جھٹلایا جو تمھارے پاس ہیں۔ پس جو کوئی اس کتاب کے کچھ حصے کو جھٹلاتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہے تو وہ تمام کتابوں کو جھٹلاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی ایک رسول کا انکار کرتا ہے تو دراصل وہ تمام رسولوں کا انکار کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اس رسول پر ایمان لانے کا حکم دیا، تو ان کو ایمان کی ضد یعنی اس کے ساتھ کفر سے روکا اور اس سے ڈرایا۔ فرمایا: ﴿ وَلَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭؔ بِهٖ﴾ یعنی رسول اللہ اور قرآن کی تکذیب کرنے والے پہلے لوگ نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ كَافِرٍۭؔ بِهٖ﴾ ’’اس کے اولین انکار کرنے والے‘‘ (وَلَا تَکْفُرُوْا بِہٖ) ’’اس کا انکار نہ کرو‘‘ سے زیادہ بلیغ ہے کیونکہ جب وہ اولین کفر کرنے والے ہوں گے تو گویا وہ کفر کی طرف بہت تیزی سے لپکے ہیں، اس رویہ کے برعکس جو ان کے لیے زیادہ مناسب تھا۔ ان کے اپنے کفر اور انکار کا گناہ تو ان کے ذمہ ہے ہی، بعد میں آنے والے ان لوگوں کا گناہ بھی ان کے کندھوں پر ہے جنھوں نے ان کی پیروی کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس مانع کا ذکر کیا جو ان کو ایمان لانے سے روکتا ہے اور وہ ہے دنیا کے ادنی فوائد کو ابدی سعادت پر ترجیح دینا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’میری آیات (میں تحریف کر کے ان) کے عوض حقیر معاوضہ مت لو‘‘ اس سے مراد وہ دنیاوی مناصب اور کھانے پینے کی اشیاء ہیں جن کے بارے میں وہ اس وہم میں پڑے ہوئے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے تو وہ ان چیزوں سے محروم ہو جائیں گے۔ پس انھوں نے ان ادنی چیزوں کو آیات الٰہی کے بدلے خرید لیا اور ادنی چیزوں کو آیات الٰہی پر ترجیح دی۔ ﴿ وَاِیَّ٘ایَ فَاتَّقُوْنِ ﴾ ’’مجھ ہی سے ڈرو‘‘ اور میرے سوا کسی سے نہ ڈرو۔ کیونکہ جب تم صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرو گے تو یہ چیز تم میں تقوی اور تھوڑی سی قیمت کے مقابلے میں آیات الٰہی پر ایمان کو مقدم رکھنے کی موجب ہو گی۔ جیسے جب تم آیات الٰہی کے بدلے تھوڑی سی قیمت کو پسند کر لیتے ہو تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تمھارے دلوں سے تقویٰ کوچ کر گیا ہے۔
{42} {ولا تلبسوا}؛ أي: تخلطوا {الحق بالباطل وتكتموا الحق}؛ فنهاهم عن شيئين، عن خلط الحق بالباطل وكتمان الحق؛ لأن المقصود من أهل الكتب والعلم تمييز الحق [من الباطل] وإظهار الحق، ليهتدي بذلك المهتدون، ويرجع الضالون وتقوم الحجة على المعاندين؛ لأن الله فصل آياته وأوضح بيناته؛ ليميز الحق من الباطل، ولتستبين سبيل المهتدين من سبيل المجرمين، فمن عمل بهذا من أهل العلم؛ فهو من خلفاء الرسل وهداة الأمم، ومن لَبَّس الحق بالباطل فلم يميز هذا من هذا مع علمه بذلك، وكتم الحق الذي يعلمه وأُمِرَ بإظهاره؛ فهو من دعاة جهنم؛ لأن الناس لا يقتدون في أمر دينهم بغير علمائهم، فاختاروا لأنفسكم إحدى الحالتين.
[42] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تَلْ٘بِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْ٘تُمُوا الْحَقَّ﴾ ’’اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ تم حق کو‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو دو چیزوں سے منع کیا ہے۔ (۱) حق کو باطل میں خلط ملط کرنے سے۔ (۲) کتمان حق سے۔ اس لیے کہ اہل کتاب اور اہل علم سے مطلوب یہ ہے کہ وہ حق کو ممیز کر کے اس کو ظاہر کریں تاکہ ہدایت کے متلاشی حق کے ذریعے سے راہ پائیں اور گم گشتہ راہ لوگ سیدھے راستے کی طرف لوٹ آئیں اور اہل عناد پر حجت قائم ہو جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کر دیا ہے اور اپنے دلائل واضح کر دیے تاکہ حق، باطل سے بالکل الگ اور ممیز ہو جائے اور مجرموں کا راستہ واضح ہو جائے۔ پس اہل علم میں سے جو کوئی حق پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ انبیاء و مرسلین کا جانشین اور قوموں کا راہ نما بن جاتا ہے اور جو حق کو باطل میں گڈ مڈ کر دیتا ہے، حق کا علم رکھنے کے باوجود حق کو باطل سے ممیز نہیں کرتا، اور اس حق کو وہ چھپاتا ہے جسے وہ جانتا ہے اور جس کے اظہار کا اسے حکم دیا گیا ہے تو ایسا شخص جہنم کے داعیوں میں شمار ہوتا ہے، کیونکہ لوگ دین کے معاملے میں اپنے علماء کے سوا کسی کی پیروی نہیں کرتے۔ پس تم ان دو چیزوں میں سے اپنے لیے جو چاہو چن لو۔
{43} ثم قال: {وأقيموا الصلاة}؛ أي: ظاهراً وباطناً {وآتوا الزكاة}؛ مستحقيها، {واركعوا مع الراكعين}؛ أي: صلوا مع المصلين، فإنكم إذا فعلتم ذلك مع الإيمان برسل الله وآيات الله، فقد جمعتم بين الأعمال الظاهرة والباطنة، وبين الإخلاص للمعبود والإحسان إلى عبيده، وبين العبادات القلبية والبدنية والمالية، وقوله: {واركعوا مع الراكعين}؛ أي: صلوا مع المصلين، ففيه، الأمر بالجماعة للصلاة، ووجوبها، وفيه، أن الركوع ركن من أركان الصلاة، لأنه عبر عن الصلاة بالركوع، والتعبير عن العبادة بجزئها يدل على فرضيته فيها.
[43] پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ﴾ یعنی (ظاہری اور باطنی طور پر) نماز قائم کرو۔ ﴿وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ﴾ یعنی (مستحقین کو) زکو ۃ دو۔ ﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ ’’اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘ یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ جب تم نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور آیات الٰہی پر ایمان رکھتے ہوئے ان افعال کو سرانجام دیا تو یقیناً تم نے اعمال ظاہرہ اور اعمال باطنہ کو، معبود کے لیے اخلاص اور اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو اور عبادات قلبیہ اور عبادات بدنیہ اور مالیہ کو جمع کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاْرکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ ’’رکوع کرنے والوں کے ساتھ مل کر رکوع کرو، کے معنییہ ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھو۔ پس اس آیت کریمہ میں باجماعت نماز کا حکم اور جماعت کے وجوب کا اثبات ہے اور یہ کہ رکوع نماز کا رکن ہے کیونکہیہاں نماز کو رکوع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور عبادت کو اس کے کسی جزو سے تعبیر کرنا عبادت میں اس جزو کی فرضیت کی دلیل ہے۔
آیت: 44
[{أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (44)}].
کیا حکم دیتے ہو تم لوگوں کو نیکی کا اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو، حالانکہ تم پڑھتے ہو کتاب،کیا پس نہیں عقل رکھتے تم؟(44)
{44} {أتأمرون الناس بالبر}؛ أي: بالإيمان والخير، {وتنسون أنفسكم}؛ أي: تتركونها عن أمرها بذلك والحال، {وأنتم تتلون الكتاب أفلا تعقلون}؛ وسُمِّي العقل عقلاً؛ لأنه يعقل به ما ينفعه من الخير، وينعقل به عما يضره، وذلك أن العقل يحث صاحبه أن يكون أول فاعل لما يأمر به، وأول تارك لما ينهى عنه، فمن أمر غيره بالخير ولم يفعله أو نهاه عن الشر فلم يتركه دل على عدم عقله وجهله، خصوصاً إذا كان عالماً بذلك، قد قامت عليه الحجة، وهذه الآية وإن كانت نزلت في سبب بني إسرائيل، فهي عامة لكل أحد لقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون كبر مقتاً عند الله أن تقولوا ما لا تفعلون}؛ وليس في الآية أن الإنسان إذا لم يقم بما أُمِر به أنه يترك الأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر؛ لأنها دلت على التوبيخ بالنسبة إلى الواجبَيْنِ، وإلا فمن المعلوم أن على الإنسان واجبين: أمر غيره ونهيه، وأمر نفسه ونهيها، فترك أحدهما لا يكون رخصة في ترك الآخر، فإن الكمال أن يقوم الإنسان بالواجبَيْنِ، والنقص الكامل أن يتركهما، وأما قيامه بأحدهما دون الآخر فليس في رتبة الأول وهو دون الأخير، وأيضاً فإن النفوس مجبولة على عدم الانقياد لمن يخالف قولَه فعلُه، فاقتداؤهم بالأفعال أبلغ من اقتدائهم بالأقوال المجردة.
[44] ﴿ اَتَاْمُرُوْنَؔ النَّاسَ بِالْـبِرِّ﴾ ’’تم لوگوں کو نیکی (یعنی ایمان اور بھلائی) کا حکم دیتے ہو‘‘ ﴿وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ ’’اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو‘‘ یعنی تم اپنے آپ کو ایمان اور بھلائی کا حکم دینا چھوڑ دیتے ہو۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ﴾ اور تمھارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟ عقل کو اس لیے عقل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے فائدہ مند چیز اور بھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس چیز سے بچا جاتا ہے جو ضرر رساں ہے اس لیے کہ عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیزسے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔ پس جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود اسے ترک نہیں کرتا تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ پس اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ہر چند کہ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے معاملے میں نازل ہوئی ہے تاہم اس کا حکم ہر ایک کے لیے عام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۰۰كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف : 61؍2۔3) ’’اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔‘‘ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انسان جس کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے رک جائے کیونکہیہ آیت دونوں واجبات کی نسبت تو بیخ پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان پر دو امور واجب ہیں۔ (۱)کسی دوسرے کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (۲) خود اپنے آپ کو نیکی پر آمادہ کرنا اور برائی سے رک جانا۔ ان میں سے ایک چیز کو ترک کرنے سے دوسری چیز کو ترک کرنے کی رخصت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ کمال یہ ہے کہ انسان دونوں واجبات پر عمل کرے اور نقص یہ ہے کہ وہ دونوں واجبات کو ترک کر دے۔ رہا ان دونوں واجبات میں سے کسی ایک پر عمل کرنا تو یہ رتبہ کمال سے نیچے اور نقص سے اوپر ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی کی جبلت میںیہ چیز داخل ہے کہ لوگ اس شخص کی اطاعت نہیں کرتے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے پس وہ عمل سے عاری اقوال کی نسبت افعال کی زیادہ پیروی کرتے ہیں۔
آیت: 45 - 48
{وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (45) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (46) يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (47) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (48)}.
اور مدد طلب کرو تم صبر اور نماز کے ذریعے سے اور بلاشبہ وہ بھاری ہے مگر عاجزی کرنے والوں پر (نہیں) (45) وہ جو یقین رکھتے ہیں اس بات کا کہ وہ ملنے والے ہیں اپنے رب سے اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں(46) اے بنو اسرائیل!یا د کرو تم میری نعمت،وہ جو انعام کی میں نے تم پر اور یہ کہ فضیلت دی میں نے تم کو جہانوں پر(47) اور ڈرو اس دن سے کہ نہیں فائدہ دے گی کوئی جان کسی جان کوکچھ اور نہ قبول کی جائے گی اس سے کوئی سفارش اور نہ لیا جائے گا اس سے کوئی بدلہ اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے(48)
{45} أمرهم الله أن يستعينوا في أمورهم كلها بالصبر بجميع أنواعه، وهو الصبر على طاعة الله حتى يؤديها، والصبر عن معصية الله حتى يتركها، والصبر على أقدار الله المؤلمة فلا يتسخطها، فبالصبر وحبس النفس على ما أمر الله بالصبر عليه معونة عظيمة على كل أمر من الأمور، ومن يتصبر يصبره الله، وكذلك الصلاة التي هي ميزان الإيمان، وتنهى عن الفحشاء والمنكر يستعان بها على كل أمر من الأمور، {وإنها}؛ أي: الصلاة، {لكبيرة}؛ أي: شاقة {إلا على الخاشعين}؛ فإنها سهلة عليهم خفيفة؛ لأن الخشوع وخشيةَ الله ورجاءَ ما عنده يوجب له فعلها منشرحاً صدره لترقبه للثواب وخشيته من العقاب، بخلاف من لم يكن كذلك، فإنه لا داعي له يدعوه إليها، وإذا فعلها صارت من أثقل الأشياء عليه. والخشوع: هو خضوع القلب وطمأنينته وسكونه لله تعالى وانكساره بين يديه ذلًّا وافتقاراً وإيماناً به وبلقائه، ولهذا قال:
[45] ﴿ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰ٘وةِ﴾ ’’اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمام امور میں صبر کی تمام اقسام سے مدد لیں۔ صبر کی اقسام یہ ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر اپنے نفس کو پابند کرنا۔ (۲) اس کی نافرمانی سے اپنے آپ کو روکنا یہاں تک کہ اسے ترک کر دے۔ (۳)اس کی تقدیر پر صبر کرنا، اور اس پر ناراضی کا اظہار نہ کرنا۔ ہر معاملے میں صبر کے ذریعے سے بڑی مدد ملتی ہے۔ جو کوئی صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر کرنے کی توفیق سے نواز دیتا ہے۔ اسی طرح نماز ہے جو کہ ایمان کی میزان ہے اور فواحش و منکرات سے روکتی ہے۔ ہر معاملہ میں نماز سے مدد لی جاتی ہے۔ ﴿وَاِنَّھَا﴾ یعنی نماز ﴿لَکَبِیْرَۃٌ﴾ بہت شاق گزرتی ہے ﴿اِلَّا عَلَی الْخَاشِعِیْنَ﴾ سوائے ڈرنے والوں کے، اس لیے کہ یہ نماز ان پر بہت آسان اور ہلکی ہے کیونکہ خشوع، خشیت الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے ثواب کی امید ان کے لیے شرح صدر کے ساتھ نماز کے قیام کی موجب ہوتی ہے کیونکہ وہ ثواب کی امید کرتے اور عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اس کے برعکس جو ثواب کی امید نہیں رکھتا اورعذاب سے نہیں ڈرتا اس کے اندر کوئی ایسا داعیہ موجود نہیں ہوتا جو اسے نماز کی طرف بلائے۔ جب ایسا شخص نماز پڑھتا ہے تو نماز اس کے لیے سب سے بوجھل چیز ہوتی ہے۔ خشوع سے مراد ہے قلب کا اللہ تعالی کے حضور عاجزی کے ساتھ سرفگندہ ہونا۔ اس کا اللہ تعالی کے پاس پرسکون اور مطمئن ہونا اور اس کے سامنے ذلت و فقر کے ساتھ اس کی ملاقات کی امید پر انکسار کا اظہار کرنا۔
{46} {الذين يظنون}؛ أي يستيقنون {أنهم ملاقو ربهم}؛ فيجازيهم بأعمالهم، {وأنهم إليه راجعون}؛ فهذا الذي خفف عليهم العبادات وأوجب لهم التسلي في المصيبات ونفس عنهم الكربات وزجرهم عن فعل السيئات، فهؤلاء لهم النعيمُ المقيمُ في الغرفاتِ العالياتِ، وأما من لم يؤمن بلقاء ربه كانت الصلاة وغيرها من العبادات من أشق شيء عليه.
[46] بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الَّذِیْنَؔیَظُنُّوْنَ﴾ یعنی جو یقین کرتے ہیں ﴿ؔ اَنَّهُمْ مُّلٰ٘قُوْا رَبِّهِمْ ﴾ کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کریں گے اور وہ ان کو ان کے اعمال کی جزا دے گا ﴿ وَاَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰؔؔجِعُوْنَ﴾ ’’اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹیں گے‘‘ اس یقین نے ان کے لیے عبادات کو آسان کر دیا ہے۔ یہییقین مصائب میں ان کے لیے تسلی کا موجب ہوتا ہے، تکالیف کو ان سے دور کرتا ہے اور برے کاموں سے انھیں روکتا ہے۔ پس یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے بلند بالا خانوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ملاقات پر ایمان نہیں رکھتا اس کے لیے نماز اور دیگر عبادات سب سے زیادہ شاق گزرنے والی چیزیں ہیں۔
{47} ثم: كرر على بني إسرائيل التذكير بنعمته وعظاً لهم وتحذيراً وحثًّا.
[47] پھر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نصیحت کی خاطر اور ان کو برائیوں سے بچانے، نیکیوں پر آمادہ کرنے کے لیے ان پر اپنی نعمتوں کی مکرر یا دوہانی کرائی ہے۔
{48} وخوفهم بيوم القيامة الذي: {لا تجزي}؛ فيه أي لا تغني {نفس}؛ ولو كانت من الأنفس الكريمة كالأنبياء والصالحين، {عن نفس}؛ ولو كانت من العشيرة الأقربين، {شيئاً}؛ لا كبيراً ولا صغيراً وإنما ينفع الإنسانَ عملُه الذي قدمه {ولا يقبل منها}؛ أي: النفس، {شفاعة}؛ لأحد بدون إذن الله ورضاه عن المشفوع له، ولا يرضى من العمل إلا ما أُريد به وجهه وكان على السبيل والسنة، {ولا يؤخذ منها عدل}؛ أي فداء ولو أن لكل نفس ظلمت ما في الأرض جميعاً ومثله معه لافتدوا به من عذاب الله ولا يقبل منهم ذلك، {ولا هم ينصرون}؛ أي: يدفع عنهم المكروه، فنفى الانتفاعَ من الخلق بوجه من الوجوه، فقوله: {لا تَجْزِي نفس عن نفس شيئاً} هذا في تحصيل المنافع، {ولا هم ينصرون} هذا في دفع المضار، فهذا النفي للأمر المستقبل به النافع، {ولا يقبل منها شفاعة ولا يؤخذ منها عدل} هذا نفي للنفع الذي يطلب ممن يملكه بعوض، كالعدل أو بغيره كالشفاعة؛ فهذا يوجب للعبد أن ينقطع قلبه من التعلق بالمخلوقين لعلمه أنهم لا يملكون له مثقال ذرة من النفع، وأن يعلقه بالله الذي يجلب المنافع ويدفع المضار فيعبده وحده لا شريك له، ويستعينه على عبادته.
[48] اور انھیں قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ ﴿ لَّا تَجْزِیْ نَ٘فْ٘سٌ ﴾ جس روز کوئی نفس کسی کے کوئی کام نہ آئے گا اگرچہ یہ انبیائے کرام اور صالحین کے نفوس کریمہ ہی کیوں نہ ہوں ﴿ عَنْ نَّ٘فْ٘سٍ ﴾ اگرچہ یہ نفس قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿ شَیْـًٔؔا﴾ ’’کچھ بھی‘‘یعنی وہ کم یا زیادہ کوئی کام بھی نہ آ سکے گا۔ انسان کو صرف اس کا وہی عمل کام دے گا جو اس نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا ہے ﴿ وَّلَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ ﴾ اس نفس کے بارے میں کسی کی سفارش قبول نہ کی جائے گی۔ ہاں شفاعت اس شخص کی قبول ہو گی جس کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور جس کی بابت شفاعت کی اجازت دی جائے گی، اس کو بھی وہ پسند کرتا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کے اسی عمل کو پسند کرے گا جو صرف اس کی رضا کے لیے اور سنت رسول کے مطابق کیا گیا ہو گا (گویا ہر شخص شفاعت کرنے کا مجاز ہو گا نہ ہر کسی کے لیے شفاعت ہی کی جا سکے گی) ۔ ﴿ وَلَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ ﴾ یعنی اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ ﴾(الزمر : 39؍47) ’’اگر ان لوگوں کے پاس جنھوں نے ظلم کیا وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو اور وہ برے عذاب سے بچنے کے لیے فدیہ میں دیں۔‘‘ (تو ان سے یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا) ﴿ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ ﴾ ’’اور نہ وہ مدد کیے جائیں گے‘‘ یعنی ان سے وہ عذاب ہٹایا نہیں جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی نفی کر دی کہ وہ کسی بھی پہلو سے قیامت کے روز مخلوق سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿لاَ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا﴾ حصول منافع کے بارے میں ہے اور ﴿وَلاَ ھُمْیُنْصَرُوْنَ﴾دفع مضرت کے بارے میں ہے اور یہ نفی مستقبل میں کسی امر نافع کے بارے میں ہے۔ ﴿وَلاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَلاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ﴾یہ اس نفع کی نفی ہے جو معاوضہ دے کر اس شخص سے طلب کیا جاتا ہے جو اس نفع کا مالک ہو۔ یہ معاوضہ کبھیتو فدیہ ہوتا ہے کبھی اس کے علاوہ سفارش وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بندے پر واجب کرتی ہے کہ وہ مخلوق سے تعلق اور امید کو منقطع کر دے کیونکہ اسے علم ہے کہ مخلوق اسے ذرہ بھر نفع پہنچانے پر قادر نہیں۔ اور اللہ تعالی سے اپنے تعلق کو جوڑے جو نفع پہنچانے والا اور تکالیف کو دور کرنے والا ہے، پس صرف اسی کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کی عبادت پر اسی سے مدد طلب کرے۔ یہاں سے بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا تفصیلاً شمار شروع ہوتا ہے، چنانچہ فرمایا:
آیت: 49 - 57
{وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (49) وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (50) وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (51) ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (52) وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (53) وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَاقَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (54) وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (55) ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (56) وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ (57)}.
اور جب نجات دی ہم نے تم کو آل فرعون سے، وہ دیتے تھے تمھیں سخت عذاب، ذبح کرتے تھے تمھارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمھاری بیٹیوں کو اوراس میں آزمائش تھی تمھارے رب کی طرف سے بڑی(49) اور جب پھاڑا ہم نے تمھاری وجہ سے سمندر کو، پھر نجات دی ہم نے تمھیں اورغرق کر دیا ہم نے آل فرعون کو اور تم دیکھ رہے تھے(50) اور جب وعدہ کیا ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا، پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو (معبود) موسیٰ کے (طور پر جانے کے) بعد اور تم ظالم تھے(51) پھر معاف کر دیا ہم نے تم کو بعد اس کے، شاید کہ تم شکر کرو(52) اور جب دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور (حق و باطل کے درمیان) فرق کرنے والی چیز، شاید کہ تم ہدایت پاؤ(53) اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے،اے میری قوم! بے شک تم نے ظلم کیا اپنے آپ پر بوجہ بنا لینے تمھارے بچھڑے کو (معبود) پس توبہ کرو تم طرف اپنے پیدا کرنے والے کی اور قتل کرو تم اپنے آپ کو، یہ بہتر ہے تمھارے لیے نزدیک تمھارے پیدا کرنے والے کے ، پھر اللہ متوجہ ہوا تم پر، بلاشبہ وہی ہے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا(54) اور جب کہا تم نے، اے موسیٰ! ہم ہرگز نہیں ایمان لائیں گے تجھ پر یہاں تک کہ دیکھ لیں ہم اللہ کو علانیہ (سامنے) پس پکڑ لیا تم کو بجلی (کے عذاب) نےاور تم دیکھ رہے تھے (55)، پھر زندہ کیا ہم نے تم کو، بعد تمھاری موت کے، شاید کہ تم شکر کرو(56) اور سایہ کیا ہم نےتم پربادلوں کا اور نازل کیا ہم نے تم پر من اور سلویٰ، کھاؤ تم (ان)پاکیزہ چیزوں سے، جو دیں ہم نے تمھیںاور نہیں ظلم کیا انھوں نے ہم پر لیکن تھے وہ اپنے آپ پر ہی ظلم کرتے(57)
{49 ـ 54} هذا: شروع في تعداد نعمه على بني إسرائيل على وجه التفصيل فقال: {وإذ نجيناكم من آل فرعون}؛ أي: من فرعون وملئه وجنوده وكانوا قبل ذلك، {يسومونكم}؛ أي: يولونهم ويستعملونهم {سوء العذاب}؛ أي: أشده بأن كانوا، {يذبحون أبناءكم}؛ خشية نموكم، {ويستحيون نساءكم}؛ أي: فلا يقتلونهن فأنتم بين قتيل ومُذلَّل بالأعمال الشاقة مستحيَى على وجه المنة عليه والاستعلاء عليه فهذا غاية الإهانة، فَمَنَّ الله عليهم بالنجاة التامة، وإغراق عدوهم، وهم ينظرون لتَقَرَّ أعينهم {وفي ذلكم}؛ أي: الإنجاء {بلاء}؛ أي: إحسان {من ربكم عظيم}؛ فهذا مما يوجب عليكم الشكر والقيام بأوامره. ثم ذكر منته عليهم بوعده لموسى أربعين ليلة؛ لينزل عليهم التوراة المتضمنة للنعم العظيمة والمصالح العميمة، ثم إنهم لم يصبروا قبل استكمال الميعاد حتى عبدوا العجل من بعده؛ أي ذهابه {وأنتم ظالمون}؛ عالمون بظلمكم، قد قامت عليكم الحجة، فهو أعظم جرماً، وأكبر إثماً. ثم إنه أمركم بالتوبة على لسان نبيه موسى بأن يقتل بعضكم بعضاً؛ فعفا الله عنكم بسبب ذلك {لعلكم تشكرون}؛ الله.
[54-49] ﴿ وَاِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَؔ ﴾یعنی فرعون، اس کے سرداروں اور اس کی فوجوں سے نجات دی جو انھیں اس سے قبل ذلت آمیز عذاب میں مبتلا رکھتے تھے ﴿یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِ﴾ وہ دیتے تھے تمہیں سخت عذاب ۔یعنی ایذا پہنچاتے اور تم سے کام لیتے تھے﴿یُذَبِّحُوْن اَبْنَآءَ کُمْ﴾ اور وہ یہ کہ تمھارے بیٹوں کو اس خوف سے ذبح کرتے تھے کہ کہیں تمھاری تعداد بڑھ نہ جائے ﴿وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ﴾ ’’اور تمھاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے‘‘ یعنی وہ تمھاری عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے پس تمھاری حالت یہ تھی کہ یا تو تمھیں قتل کر دیا جاتا تھا یا تم سے مشقت کے کام لے کر تمھیں ذلیل کیا جاتا تھا۔ اور تمھیں احسان کے طور پر اور اظہار غلبہ کے لیے زندہ رکھا جاتا تھا۔ یہ توہین اور اہانت کی انتہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں مکمل نجات عطا کر کے اور ان کے آنکھوں دیکھتے ان کے دشمن کو غرق کر کے ان پر احسان فرمایا۔ تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو۔ ﴿وَفِیْ ذٰلِکُمْ﴾ ’’اور اس میں‘‘یعنی اللہ تعالیٰ کے اس نجات عطا کرنے میں ﴿بَلَآءٌ مِنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے بہت بڑا احسان ہے۔‘‘ پس یہ چیز تم پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کے احکامات کی اطاعت کو واجب کرتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے موسیٰ(u)کے ساتھ چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ ان پر تورات نازل کرے گا جو عظیم نعمتوں اور مصالح عامہ کو متضمن ہو گی۔ پھر وہ اس میعاد کے مکمل ہونے تک صبر نہ کر سکے چنانچہ انھوں نے حضرت موسیٰuکے چلے جانے کے بعد بچھڑے کی پوجا شروع کر دی ﴿وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ﴾ ’’اور تم ظالم تھے‘‘ یعنی اپنے ظلم کو جاننے والے۔ تم پر حجت قائم ہو گئی۔ پس یہ سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ہے۔ پھر اس نے اپنے نبی موسیٰ(u)کی زبان پر تمھیں توبہ کرنے کا حکم دیا۔ اور اس توبہ کی صورت یہ تھی کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے تمھیں معاف کر دیا ﴿لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ شاید کہ تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔
{55} {وإذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة}؛ وهذا غاية الجرأة على الله وعلى رسوله، {فأخذتكم الصاعقة}؛ إما الموت أو الغشية العظيمة {وأنتم تنظرون}؛ وقوع ذلك كل ينظر إلى صاحبه.
[55] ﴿وَاِذْ قُلْتُمْ یَامُوْسٰی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً﴾ ’’اور جب تم نے کہا، اے موسیٰ، ہم ہرگز تیری بات کا یقین نہیں کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو سامنے دیکھ لیں‘‘یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقابلے میں تمھاری جرأت کی انتہا تھی ﴿ فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰؔعِقَةُ ﴾ پس تمھیں بے ہوشی نے آ لیا (اس بے ہوشی سے مراد) یا تو موت ہے یا عظیم بے ہوشی ہے ﴿وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ﴾ تم اس تمام واقعہ کو دیکھ رہے تھے، ہر شخص اپنے ساتھی کو دیکھ رہا تھا
{56} {ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون}؛ ثم ذكر نعمته عليهم في التِيه والبرية الخالية من الظلال وسعة الأرزاق فقال:
[56] ﴿ ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّـكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ پھر تمھارے مرنے کے بعد ہم نے تمھیں دوبارہ زندہ کیا شاید کہ تم شکر گزار بنو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں کا ذکر فرمایا جن سے اس نے بنی اسرائیل کو اس بیابان و صحرا میں نوازا جو سائے اور کھانے پینے کی چیزوں کی فراوانی سے خالی تھا۔
{57} {وظللنا عليكم الغمام وأنزلنا عليكم المنّ}؛ وهو: اسم جامع لكل رزق [حسن] يحصل بلا تعب، ومنه الزنجبيل والكمأة، والخبز، وغير ذلك، {والسلوى}؛ طائر صغير يقال له: السماني طيب اللحم؛ فكان ينزل عليهم من المنِّ والسلوى ما يكفيهم ويقيتهم {كلوا من طيبات ما رزقناكم}؛ أي: رزقاً لا يحصل نظيره لأهل المدن المترفهين، فلم يشكروا هذه النعمة ، واستمروا على قساوة القلوب وكثرة الذنوب {وما ظلمونا}؛ يعني بتلك الأفعال المخالفة لأوامرنا، لأن الله لا تضره معصية العاصين كما لا تنفعه طاعات الطائعين {ولكن كانوا أنفسهم يظلمون}؛ فيعود ضرره عليهم.
[57] فرمایا: ﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْ٘مَنَّ ﴾ ’’پھر ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا اور تم پر مَنّ نازل کیا۔‘‘ ﴿اَلْمَنَّ﴾ ہر قسم کے اس رزق کے لیے ایک جامع نام ہے جو بغیر کسی جدوجہد کے حاصل ہوتا ہو، مثلاً سونٹھ، کھمبی اور خبنر (روٹی) (ایک قسم کی نباتات) وغیرہ ﴿وَالسَّلْوٰی﴾ ایک چھوٹا سا پرندہ تھا جسے ’’سمانی‘‘ (ایک قسم کی بٹیر) کہا جاتا ہے اس کا گوشت بہت لذیذ ہوتا ہے۔ پس یہ من اور سلویٰ اس مقدار میں ان پر اترتے کہ ان کی خوراک کے لیے کافی ہوتے ﴿ كُلُ٘وْا مِنْ طَیِّبٰؔتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ ’’ان پاکیزہ چیزوں سے کھاؤ جو ہم نے تمھیں دیں۔‘‘ یعنی ہم نے تمھیں ایسا رزق عطا کیا ہے کہ اس جیسا رزق آسودہ حال شہروں کے باشندوں کو بھی حاصل نہیں۔ مگر انھوں نے اس نعمت کا شکر ادا نہ کیا اور ان کے دلوں کی سختی اور گناہوں کی کثرت بدستور قائم رہی۔ ﴿وَمَا ظَلَمُوْنَا﴾ یعنی انھوں نے ہمارے احکام کے برعکس مخالف افعال کا ارتکاب کر کے ہم پر ظلم نہیں کیا۔ کیونکہ اہل معاصی کی معصیت اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ جیسے اطاعت گزاروں کی اطاعت اسے فائدہ نہیں پہنچاتی۔ ﴿ وَلٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْیَظْ٘لِمُوْنَ﴾ ’’لیکن وہ اپنے ہی نفسوں پر ظلم کرتے تھے‘‘ یعنی اس کا نقصان انھی کی طرف لوٹے گا۔
آیت: 58 - 59
{وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ (58) فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (59)}.
اور جب کہا ہم نے، داخل ہو تم اس بستی میں اور کھاؤاس میں سے جہاں سےچاہو تم فراغت سے اور داخل ہو تم دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہو بخش دے ہمیں، تو معاف کر دیں گے ہم تمھاری خطائیں اور عنقریب زیادہ دیں گے ہم احسان کرنے والوں کو(58) پس بدل دیا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہی گئی تھی ان سے، تو نازل کیا ہم نے اوپران لوگوں کے جنھوں نےظلم کیا، عذاب آسمان سے، اس وجہ سے کہ تھے وہ نافرمانی کرتے(59)
{58} وهذا أيضاً من نعمته عليهم بعد معصيتهم إياه، فأمرهم بدخول قرية تكون لهم عزًّا ووطناً ومسكناً، ويحصل لهم فيها الرزقُ الرغدُ، وأن يكون دخولهم على وجه خاضعين لله فيه بالفعل، وهو دخول الباب سجداً، أي: خاضعين ذليلين، وبالقول وهو أن يقولوا: {حطة}؛ أي: أن يحط عنهم خطاياهم بسؤالهم إياه مغفرته، {نغفر لكم خطاياكم}؛ بسؤالكم المغفرة {وسنزيد المحسنين}؛ بأعمالهم أي: جزاء عاجلاً وآجلاً.
[58] یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہی تھی کہ ان کی نافرمانی کے بعد بھی اس نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایک بستی میں داخل ہو جائیںیہ بستی ان کے لیے باعثِ عزت، ان کا وطن اور ان کا مسکن ہو گی اور اس بستی میں ان کو وافر اور بے روک ٹوک رزق ملے گا۔ بستی میں ان کا داخلہ بالفعل خضوع کی حالت میں ہو یعنی وہ بستی کے دروازے میں ﴿سُجَّدًا﴾ ’’سجدے کی حالت میں‘‘ گزریںیعنی وہ اس حالت میں دروازے میں داخل ہوں کہ ان پر خشوع و خضوع طاری ہو اور بالقول وہ ﴿حِطَّۃٌ﴾ ’’بخش دے‘‘ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں یعنی ان کے مغفرت کے سوال پر ان کی خطائیں معاف کر دی جائیں۔ ﴿نَّ٘غْفِرْ لَـكُمْ خَطٰیٰؔكُمْ﴾ تمھارے مغفرت کے سوال کرنے پر وہ تمھاری خطائیں معاف کر دے گا ﴿وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ یعنی بھلائی کا کام کرنے والوں کو ہم دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کی جزا زیادہ دیں گے۔
{59} {فبدل الذين ظلموا}؛ منهم، ولم يقل فبدلوا؛ لأنهم لم يكونوا كلهم بدلوا {قولاً غير الذي قيل لهم}؛ فقالوا: بدل حطة، حبة في حنطة، استهانة بأمر الله، واستهزاء وإذا بدلوا القول مع خفته فتبديلهم للفعل من باب أولى وأحرى، ولهذا دخلوا يزحفون على أدبارهم، ولما كانهذا الطغيان أكبر سببٍ لوقوع عقوبة الله بهم قال: {فأنزلنا على الذين ظلموا}؛ منهم {رجزاً}؛ أي: عذاباً {من السماء}؛ بسبب فسقهم وبغيهم.
[59] ﴿فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا﴾ یعنی ان لوگوں نے اس قول کو بدل دیا تھا جنھوں نے ان میں سے ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے (فَبَدَّلُوْا) ’’ان سب نے بدل دیا‘‘ نہیں فرمایا کیونکہ سب لوگ قول کو بدلنے والے نہ تھے ﴿قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَهُمْ﴾ ’’بات، سوائے اس بات کے جو ان سے کہی گئی تھی‘‘ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی توہین اور اس سے استہزا کرتے ہوئے حِطَّۃٌ کی بجائے (حَبَّۃٌ فِیْ حِنْطَۃٍ) کا لفظ کہا۔ جب ’’قول‘‘ کو باوجود اس کے کہ وہ آسان تھا، انھوں نے اسے بدل دیا تو ’’فعل‘‘ کو بدلنے کی ان سے بدرجہ اولیٰ توقع کی جا سکتی ہے، اس لیے وہ (اللہ تعالیٰ کے حکم کے برعکس) اپنے سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے۔ چونکہ یہ سرکشی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے واقع ہونے کا سب سے بڑا سبب تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا﴾ یعنی ان میں سے ظالموں پر عذاب نازل کیا۔ ﴿مِنَ السَّمَآءِ﴾ یعنی ان کی نافرمانی اور ان کے بغاوت کے رویہ کے سبب سے (آسمان سے یہ عذاب نازل ہوا۔)
آیت: 60
{وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ (60)}.
اور جب پانی مانگا موسیٰ نےاپنی قوم کے لیے تو ہم نے کہا، مار تو اپنا عصا پتھر کو، پس بہہ نکلے اس (پتھر) سے بارہ چشمے،تحقیق پہچان لیا ہر قوم نے گھاٹ اپنا اپنا، کھاؤ اور پیو اللہ کے رزق سے اور نہ پھرو تم زمین میں فساد کرتے ہوئے(60)
{60} {استسقى}؛ أي: طلب لهم ماء يشربون منه {فقلنا اضرب بعصاك الحجر}؛ إما حجر مخصوص معلوم عنده، وإما اسم جنس؛ {فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً}؛ وقبائل بني إسرائيل اثنتا عشرة قبيلة، {قد علم كل أناس}؛ منهم {مشربهم}؛ أي: محلهم الذي يشربون عليه من هذه الأعين، فلا يزاحم بعضهم بعضاً بل يشربونه متهنئين لا متكدرين، ولهذا قال: {كلوا واشربوا من رزق الله}؛ أي: الذي آتاكم من غير سعي ولا تعب {ولا تعثوا في الأرض}؛ أي: تخربوا على وجه الإفساد.
[60] یعنی جب حضرت موسیٰuنے بنی اسرائیل کے لیے پانی مانگا تاکہ وہ اس پانی کو پینے کے لیے استعمال کر سکیں ﴿فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ﴾ ’’تو ہم نے کہا، اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔‘‘ یہاں ’’الْحَجَرَ‘‘ کے معرفہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یا تو یہ کوئی مخصوص پتھر تھا جسے حضرت موسیٰuجانتے تھے یا اسم جنس کی بنا پر معرفہ ہے۔ ﴿فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا﴾ ’’پس اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے‘‘ اور بنی اسرائیل کے بھی بارہ قبیلے تھے۔ ﴿قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ﴾ یعنی ہر ایک قبیلے نے اپنی وہ جگہ معلوم کر لی جہاں انھوں نے ان چشموں سے پانی پینا ہے تاکہ وہ پانی پیتے وقت ایک دوسرے کے مزاحم نہ ہوں، بلکہ وہ بغیر کسی تکدر کے خوش گواری کے ساتھ پانی پئیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ﴾ یعنی وہ رزق جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں بغیر کوشش اور جدوجہد کے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیؤ ﴿وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ﴾ یعنی فساد پھیلانے کی خاطر زمین کو مت اجاڑو۔
آیت: 61
{وَإِذْ قُلْتُمْ يَامُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (61)}.
اور جب کہا تم نے اے موسیٰ! ہر گز نہیں صبر کریں گے ہم ایک کھانے پر، پس دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے کہ وہ نکالے ہمارے لیے وہ چیزیں کہ اگاتی ہے زمین، (یعنی ) اپنی ترکاری اور ککڑی اور گندم اور مسور اور پیاز، موسیٰ نے کہا: کیا بدلے میں لینا چاہتے ہو تم اس چیز کو جو ادنیٰ ہے بجائے اس چیز کے جو بہتر ہے؟ اُترو! کسی شہر میں، پس بے شک تمھارے لیے وہی ہے جس کا سوال کیا تم نے،اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور پھرے وہ ساتھ اللہ کے غضب کے، یہ ، اس لیے ہوا کہ بے شک تھے وہ کفر کرتے ساتھ اللہ کی آیتوں کے اور قتل کرتے تھے نبیوں کو ناحق، یہ اس سبب سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور تھے وہ حد سے تجاوز کرتے(61)
{61} أي: واذكروا {إذ قلتم} لموسى على وجه التملل لنعم الله، والاحتقار لها {لن نصبر على طعام واحد}؛ أي: جنس من الطعام وإن كان كما تقدم أنواعاً لكنها لا تتغير {فادع لنا ربك يخرج لنا مما تنبت الأرض من بقلها}؛ أي: نباتها الذي ليس بشجر يقوم على ساقه {وقثائها}؛ وهو الخيار {وفومها}؛ أي: ثومها والعدس والبصل معروف، قال لهم موسى: {أتستبدلون الذي هو أدنى}؛ وهو الأطعمة المذكورة {بالذي هو خير}؛ وهو المن والسلوى، فهذا غير لائق بكم، فإن هذه الأطعمة التي طلبتم، أي مِصْرٍ هبطتموه وجدتموها، وأما طعامكم الذي منَّ الله به عليكم فهو خير الأطعمة وأشرفها فكيف تطلبون به بدلاً؟ ولما كان الذي جرى منهم فيه أكبر دليل على قلة صبرهم، واحتقارهم لأوامر الله ونعمه جازاهم من جنس عملهم فقال: {وضربت عليهم الذلة}؛ التي تُشاهدَ على ظاهر أبدانهم {والمسكنة}؛ بقلوبهم فلم تكن أنفسهم عزيزة، ولا لهم همم عالية بل أنفسهم أنفس مهينة، وهممهم أردأ الهمم {وباؤوا بغضب من الله}؛ أي: لم تكن غنيمتهم التي رجعوا بها، وفازوا إلا أن رجعوا بسخطه عليهم؛ فبئس الغنيمة غنيمتهم، وبئس الحالة حالتهم {ذلك}؛ الذي استحقوا به غضبه {بأنهم كانوا يكفرون بآيات الله}؛ الدالات على الحق الموضحة لهم، فلما كفروا بها عاقبهم بغضبه عليهم وبما كانوا {يقتلون النبيين بغير الحق}؛ وقوله: {بغير الحق} زيادة شناعة، وإلا فمن المعلوم أن قتل النبيين لا يكون بحق، لكن لئلا يظن جهلهم وعدم علمهم {ذلك بما عصوا}؛ بأن ارتكبوا معاصي الله {وكانوا يعتدون}؛ على عباد الله؛ فإن المعاصي يجر بعضها بعضاً، فالغفلة ينشأ عنها الذنب الصغير، ثم ينشأ عنه الذنب الكبير، ثم ينشأ عنها أنواع البدع والكفر وغير ذلك، فنسأل الله العافية من كل بلاء. واعلم أن الخطاب في هذه الآيات لأمة بني إسرائيل الذين كانوا موجودين وقت نزول القرآن، وهذه الأفعال المذكورة خوطبوا بها وهي فعل أسلافهم، ونسبت لهم لفوائد عديدة. منها: أنهم كانوا يتمدحون، ويزكون أنفسهم، ويزعمون فضلهم على محمد ومن آمن به؛ فبين الله من أحوال سلفهم التي قد تقررت عندهم ما يبين به لكل واحد منهم أنهم ليسوا من أهل الصبر، ومكارم الأخلاق، ومعالي الأعمال، فإذا كانت هذه حالة سلفهم ـ مع أن المظنة أنهم أولى وأرفع حالة ممن بعدهم ـ فكيف الظن بالمخاطبين! ومنها: أن نعمة الله على المتقدمين منهم نعمة واصلة إلى المتأخرين، والنعمة على الآباء نعمة على الأبناء، فخوطبوا بها، لأنها نعم تشملهم وتعمهم. ومنها: أن الخطاب لهم بأفعال غيرهم مما يدل على أن الأمة المجتمعة على دين تتكافل وتتساعد على مصالحها، حتى كأنَّ متقدمهم ومتأخرهم في وقت واحد، وكأن الحادثَ من بعضهم حادثٌ من الجميع؛ لأن ما يعمله بعضهم من الخير يعود بمصلحة الجميع، وما يعمله من الشر يعود بضرر الجميع. ومنها: أن أفعالهم أكثرها لم ينكروها، والراضي بالمعصية شريك للعاصي، إلى غير ذلك من الحكم التي لا يعلمها إلا الله.
[61] تم اس وقت کو بھییاد کرو جب تم نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے اکتا کر اور ان کو حقیر جانتے ہوئے کہا تھا: ﴿لَنْ نَّصْبِرَ عَلَی طَعَامٍ وَّاحِدٍ﴾ یعنی ہم ایک ہی جنس کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ ان کا کھانا جیسا کہ (گزشتہ سطور میں) گزر چکا ہے اگرچہ متعدد انواع کا تھا۔ مگر ان میں تبدیلی نہ ہوتی تھی۔ ﴿فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّؔا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ مِنْۢ بَقْلِهَا﴾ ’’پس تو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ نکالے ہمارے لیے وہ جو اگتا ہے زمین سے، سبزی‘‘یعنی زمین کی نباتات، جن کا شمار تن آور درختوں میں نہیں ہوتا ﴿ وَقِثَّآىِٕهَا ﴾ یعنی ککڑی ﴿وَفُوْ مِھَا﴾ یعنی لہسن ﴿وَعَدَسِھَا وَبَصَلِھَا﴾ یعنی مسور اور پیاز جو کہ معروف ہیں۔ تب حضرت موسیٰuنے ان سے فرمایا: ﴿اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی﴾ ’’کیا لینا چاہتے ہو تم وہ چیز جو ادنی ہے‘‘ یعنییہ تمام کھانے کی چیزیں جن کا ذکر ہو چکا ہے ﴿بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ﴾ ’’اس کے بدلے میں جو بہتر ہے‘‘ اس سے مراد ’’من و سلوی‘‘ ہے یعنی ایسا کہنا تمھارے لائق نہ تھا، اس لیے کہ کھانے کییہ تمام انواع جن کا تم نے مطالبہ کیا ہے، تم جس کسی شہر میں بھی جاؤ گے وہاں تم کو مل جائیں گی۔ رہا وہ کھانا جس سے تمھیں اللہ تعالیٰ نے نوازا تھا وہ تمام کھانوں سے افضل اور ان سے بہتر ہے۔ پھر تم کیسے ان کھانوں کے بدلے دوسرے (ادنی) کھانوں کا مطالبہ کرتے ہو؟ چونکہ جو کچھ ان کی طرف سے واقع ہوا وہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ صبر ان میں بہت ہی قلیل تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی نعمتوں کو حقیر خیال کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالی نے ان کو ایسا بدلہ دیا جو ان کے اعمال ہی کی جنس میں سے تھا۔ فرمایا: ﴿وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ﴾ ’’اور ان پر ذلت مسلط کر دی گئی‘‘یعنی وہ ذلت جس کا ظاہری طور پر ان کے جسموں پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ﴿وَالْمَسْکَنَۃُ﴾ یعنی مسکینی جو ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گئی۔ پس ان کی عزت نفس باقی رہی نہ بلند ہمتی بلکہ ان کے نفس ذلیل و خوار اور ان کی ہمتیں پست ترین ہو گئیں۔ ﴿ وَبَآءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے‘‘ یعنی وہ غنیمت جسے لے کر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے تھے اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے ساتھ لوٹے تھے۔ ان کی غنیمت کتنی بری غنیمت تھی اور ان کی حالت کتنی بری حالت تھی۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ وہ رویہ، جس کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ٹھہرے ﴿ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا یَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰه﴾ ’’یہ تھا کہ وہ اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے‘‘ جو حق پر دلالت اور اس کو واضح کرتی تھیں چونکہ انھوں نے ان آیات کا انکار کر دیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان پر اپنا غضب مسلط کر دیا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ﴿ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ﴾ انبیاء کو ناحق قتل کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿بِغَیْرِ الْحَقِّ﴾ فعل کی برائی میں اضافہ کے اظہار کے لیے ہے ورنہ یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ قتل انبیاء کسی بھی صورت میں حق نہیں ہوتا (بنا بریںیہ لفظ استعمال کیا گیا ہے) کہ کہیں وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی وجہ سے ایسا نہ سمجھ لیں۔ ﴿ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا ﴾ یعنییہ مذکورہ سزا کی وجہ ان کا گناہوں کا ارتکاب تھا ﴿ وَّكَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ﴾ اور وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر زیادتی کے مرتکب ہوا کرتے تھے کیونکہ گناہ اور معاصی ایک دوسرے کا سبب بنتے ہیں۔ پس غفلت سے گناہ صغیرہ جنم لیتے ہیں ،پھر ان گناہوں سے گناہ کبیرہ جنم لیتے ہیں، پھر کبیرہ گناہوں سے مختلف قسم کی بدعات اور کفر کے رویئے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم ہر آزمائش سے اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ ان آیات کریمہ میں خطاب بنی اسرائیل کے ان لوگوں سے ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ افعال جن کا ذکر اس خطاب میں کیا گیا ہے ان کا ارتکاب ان کے اسلاف نے کیا تھا۔ ان افعال کی نسبت نزول قرآن کے وقت موجود بنی اسرائیل کی طرف متعدد وجوہ کی بنا پر کی گئی ہے۔ مثلاً: (۱)یہودی اپنے آپ کو پاک سمجھتے تھے اور اپنی تعریف کیا کرتے تھے اور اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ محمد رسول اللہeاور اہل ایمان سے افضل ہیں۔ ان کے اسلاف کے ان احوال کے ذریعے سے جو ان کے ہاں بھی مسلمہ تھے اللہ تعالی نے ان سب پر واضح کر دیا کہ وہ صبر، مکارم اخلاق اور بلند پایہ اعمال کے مالک نہیں تھے۔ جب ان کے اسلاف کی حالت یہ تھی۔ اس گمان کے باوجود کہ ان کی حالت بعد میں آنے والوں سے بہتر ہو گی تو ان یہودیوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتاہے جو قرآن کے براہ راست مخاطب تھے۔ (۲)للہ تعالیٰ کی جو نعمت متقدمین کو عطا ہوتی ہے وہ متأخرین کو بھی پہنچتی ہے جو نعمت آباء و اجداد کو عطا ہوتی ہے وہ نعمت درحقیقت اولاد کو عطا ہوتی ہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت موجود یہودی بھی ان نعمتوں میں شامل تھے، اس لیے ان کو خطاب کیا گیا۔ (۳)دوسروں کے افعال کی وجہ سے ان کو مخاطب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل کی امت ایک ایسے دین پر متفق تھی جس میں وہ ایک دوسرے کے ضامن اور ایک دوسرے کے معاون تھے۔ گویا کہ ان کے متقدمین اور متأخرین ایک ہی زمانے کے لوگ ہوں۔ ان میں سے کسی ایک سے کام کا ظاہر ہونا سب کی طرف سے ہے کیونکہ ان میں سے جو کوئی بھلائی کا کام کرتا ہے تو اس بھلائی کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے اور ان میں سے جو کوئی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا نقصان بھی سب کو اٹھانا پڑتا ہے۔ (۴)متقدمین کے اکثر افعال کا متأخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا اور معصیت پر رضامندی کا اظہار کرنے والا معصیت کے مرتکب کے گناہ میں شریک ہے۔ ان کے علاوہ دیگر حکمتیں بھی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
آیت: 62
{إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62)}.
بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صابئین (ان میں سے) جو بھی ایمان لایا اللہ اور یوم آخرت پر اور عمل کیا نیک، تو ان کے لیے اجر ہے ان کا، پاس ان کے، رب کےاور نہ کوئی خوف ہو گا ان پر اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے(62)
{62} وهذا الحكم على أهل الكتاب خاصة، لأن الصابئين الصحيح: أنهم من جملة فرق النصارى، فأخبر الله أن المؤمنين من هذه الأمة واليهود والنصارى والصابئين من آمن بالله [منهم] واليوم الآخر وصدقوا رسلهم، فإن لهم الأجر العظيم، والأمن، ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون، وأما من كفر منهم بالله ورسله واليوم الآخر، فهو بضد هذه الحال؛ فعليه الخوف والحزن. والصحيح: أن هذا الحكم بين هذه الطوائف من حيث هم لا بالنسبة إلى الإيمان بمحمد، فإن هذا إخبار عنهم قبل بعثة محمد، وإن هذا مضمون أحوالهم، وهذه طريقة القرآن إذا وقع في بعض النفوس ـ عند سياق الآيات ـ بعض الأوهام، فلا بد أن تجد ما يزيل ذلك الوهم؛ لأنه تنزيل من يعلم الأشياء قبل وجودها، ومن رحمته وسعت كل شيء، وذلك ـ والله أعلم ـ أنه لما ذكر بني إسرائيل وذمهم وذكر معاصيَهم وقبائحهم ربما وقع في بعض النفوس أنهم كلهم يشملهم الذم، فأراد الباري تعالى أن يبين من لا يلحقه الذم منهم بوصفه، ولما كان أيضاً ذكر بني إسرائيل خاصة يوهم الاختصاص بهم، ذكر تعالى حكماً عامًّا يشمل الطوائف كلها؛ ليتضح الحق ويزول التوهم والإشكال، فسبحان من أودع في كتابه ما يبهر عقول العالمين.
[62] پھر اہل کتاب کے مختلف گروہوں کے درمیان محاکمہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ حکم خاص طور پر اہل کتاب کے لیے ہے کیونکہ صابئین کے بارے میں صحیح ترین رائے یہ ہے کہ یہ نصاریٰ ہی کا ایک فرقہ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس امت کے اہل ایمان ، یہود و نصاریٰ اور صابئین میں سے جو کوئی اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اپنے رسولوں کی تصدیق کی ان کے لیے اجر عظیم اور امن ہے۔ ان پر کسی قسم کا خوف ہو گا نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔ ان میں سے جس کسی نے اللہ تعالیٰ ، اس کے انبیاء و رسل اور یوم آخرت کا انکار کیا تو ان کا حال مذکورہ بالا لوگوں کے حال کے برعکس ہو گا، پس وہ خوف اور غم سے دوچار ہوں گے۔ (مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں) صحیح مسلک یہ ہے کہ ان فرقوں کے مابینیہ محاکمہ رسول اللہeپر ایمان لانے کی نسبت سے نہیں بلکہ ان کی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہے۔ کیونکہیہ تو نبی اکرمeکی بعثت سے قبل ان کے احوال کی خبر ہے۔ یہ قرآن کا طریقہ ہے۔ جب سیاق آیات کے بارے میں بعض نفوس وہم کا شکار ہوجائیں تو لازمی طور پر وہ کوئی ایسی چیز ضرور پائیں گے جو ان کے وہم کو زائل کر دے۔ کیونکہیہ کلام ایسی ہستی کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جو اشیاء کے وجود میں آنے سے قبل ہی ان کو جانتی ہے۔ اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے ..واللہ تعالیٰ أعلم.. چونکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا ذکر مذمت کے طور پر کیا ہے اور ان کے گناہوں اور برائیوں کا تذکرہ کیا ہے اور بسا اوقات دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس مذمت میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں، اس لیے اللہ نے ایسے لوگوں کے بارے میں واضح کر دیا جو اس مذمت میں شامل نہیں۔ نیز چونکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جس سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ باتیںصرف بنی اسرائیل ہی سے متعلق ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ایک عام حکم بیان کر دیا جو تمام طوائف کو شامل ہے تاکہ حق واضح اور وہم و اشکال دور ہو جائے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی کتاب میں ایسی چیزیں بیان کی ہیں جو عقلوں کو متحیر کر دیتی ہیں۔
آیت: 63 - 64
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (63) ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ (64)}
اور جب لیا ہم نے پختہ وعدہ تم سے اور بلند کیا ہم نے تم پر طور پہاڑ کو (اور کہا) پکڑو تم اس کو جو دیا ہم نے تمھیں، قوت سے اور یاد رکھو تم جو کچھ اس میں ہے، شاید کہ تم متقی بن جاؤ(63) پھر پھر گئے تم بعد اس کے، پس اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور رحمت اس کی، تو ضرور ہو جاتے تم خسارہ پانے والوں میں سے(64)
{63} أي: واذكروا، {إذ أخذنا ميثاقكم}؛ وهو العهد الثقيل المؤكد بالتخويف لهم برفع الطور فوقهم وقيل لهم، {خذوا ما آتيناكم}؛ من التوراة {بقوة}؛ أي بجد واجتهاد، وصبر على أوامر الله {واذكروا ما فيه}؛ أي: ما في كتابكم بأن تتلوه وتتعلموه {لعلكم تتقون}؛ عذاب الله وسخطه، أو لتكونوا من أهل التقوى.
[63] اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اسلاف کے افعال کی وجہ سے ان پر زجر و توبیخ کا پھر اعادہ کیا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ ﴾ یعنی وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا۔ (مِیثَاق) سے مراد ایسا پکا عہد ہے جو طور کو ان کے اوپر معلق کر کے ڈر اور دباؤ کے ذریعے سے موکد کیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا ﴿خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ﴾ یعنی تورات کو پکڑے رہو ﴿ بِقُوَّةٍ ﴾ یعنی تورات کو محنت، کوشش اور اللہ تعالیٰ کے اوامر پر صبر و استقامت کے ساتھ پکڑے رہو۔ ﴿ وَّاذْكُرُوْا مَا فِیْهِ﴾ یعنی جو کچھ تمھاری کتاب میں ہے اسے سیکھو اور اس کی تلاوت کرو۔ ﴿لَعَلَّـكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ’’تاکہ تم اللہ تعالی کے عذاب اور اس کی ناراضی سے بچو ‘‘ یا ’’تاکہ تم اہل تقویٰ میں شمار ہو۔‘‘
{64} فبعد هذا التأكيد البليغ {توليتم}؛ وأعرضتم وكان ذلك موجباً لأن يحل بكم أعظم العقوبات ولكن {لولا فضل الله عليكم ورحمته لكنتم من الخاسرين}.
[64] پھر اس نہایت بلیغ تاکید کے بعد فرمایا: ﴿ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ ﴾ یعنی پھر تم نے اس سے اعراض کیا اور یہ روگردانی تمھارے لیے اللہ تعالیٰ کے سخت ترین عذاب کا باعث بنی ﴿فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَكُنْتُمْ مِّنَ الْ٘خٰؔسِرِیْنَ﴾ ’’لیکن اگر تم پر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً خسارے میں پڑ جاتے۔‘‘
آیت: 65 - 66
{وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ (65) فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (66)}.
اور البتہ تحقیق جان لیا تم نے ان لوگوں کو جنھوں نے زیادتی کی تم میں سے ہفتے (کے دن) میں، تو کہا ہم نے ان سے ہو جاؤ تم بندر ذلیل(65) پس کیا ہم نے اس (واقعے) کو عبرت ان لوگوں کے لیے جو اس کے سامنے (موجود) تھے اور جو اس کے پیچھے (آنے والے) تھےاور (کیا) نصیحت متقی لوگوں کے لیے(66)
{65} أي: ولقد تقرر عندكم حالةُ، {الذين اعتدوا منكم في السبت}؛ وهم الذين ذكر الله قصتهم مبسوطة في سورة الأعراف في قوله: {واسألهم عن القرية التي كانت حاضرة البحر إذ يعدون في السبت ... } الآيات؛ فأوجب لهم هذا الذنب العظيم أن غضب الله عليهم، وجعلهم {قردة خاسئين}؛ حقيرين ذليلين، وجعل الله هذه العقوبة:
[65] یعنی تمھارے نزدیک ان لوگوں کی حالت ثابت ہو گئی ہے ﴿الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ﴾ جنھوں نے تم میں سے ہفتے کے روز زیادتی سے کام لیا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کا مبسوط اور مفصل قصہ اللہ تعالی نے سورۂ اعراف میں بیان کیا ہے: ﴿وَسْـَٔؔلْهُمْ عَنِ الْ٘قَرْیَةِ الَّتِیْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ١ۘ اِذْ یَعْدُوْنَ فِی السَّبْتِ اِذْ تَاْتِیْهِمْ حِیْتَانُهُمْیَوْمَ سَبْتِهِمْ شُ٘رَّعًا وَّیَوْمَ لَا یَسْبِتُوْنَ١ۙ لَا تَاْتِیْهِمْ١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ نَبْلُوْهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ۰۰وَاِذْ قَالَتْ اُمَّةٌ مِّؔنْهُمْ لِمَ تَعِظُوْنَ قَوْ مَا اِ۟ ١ۙ اللّٰهُ مُهْلِكُ٘هُمْ اَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابً٘ا شَدِیْدًؔا١ؕ قَالُوْا مَعْذِرَةً اِلٰى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ۰۰فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّ٘رُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَیَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَاَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَىِٕیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ﴾ (الاعراف: 7؍163 -165) ’’اور آپ ان لوگوں سے، اس بستی والوں کا جو کہ دریائے (شور) کے قریب آباد تھے اس وقت کا حال پوچھیے! جبکہ وہ ہفتہ کے بارے میں حد سے نکل رہے تھے جبکہ ان کے ہفتہ کے روز تو ان کی مچھلیاں ظاہر ہوہوکر ان کے سامنے آتی تھیں، اور جب ہفتہ کا دن نہ ہوتا تو ان کے سامنے نہ آتی تھیں، ہم ان کی اس طرح پر آزمائش کرتے تھے اس سبب سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت نے یوں کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ بالکل ہلاک کرنے والا ہے یا ان کو سخت سزا دینے والا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ تمھارے رب کے روبرو عذر کرنے کے لیے اور اس لیے کہ شایدیہ ڈر جائیں۔ سو جب وہ اس کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچالیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب سے پکڑلیا اس وجہ سے کہ وہ بے حکمی کیا کرتے تھے۔‘‘ اس گناہ عظیم نے ان پر اللہ تعالیٰ کا غضب واجب کر دیا۔ ﴿ قِرَدَةً خٰسِـِٕیْنَ﴾ اور ان کو حقیر اور ذلیل بندر بنا دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس سزا کو ان قوموں کے لیے۔
{66} {نكالاً لما بين يديها}؛ أي: لمن حضرها من الأمم، وبلغه خبرها ممن هو في وقتهم {وما خلفها}؛ أي: من بعدها فتقوم على العباد حجة الله، وليرتدعوا عن معاصيه، ولكنها لا تكون موعظة نافعة إلا للمتقين، وأما من عداهم فلا ينتفعون بالآيات.
[66] ﴿ نَكَالًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْهَا﴾ عبرت بنا دیا جو اس وقت وہاں موجود تھیں اور اس زمانے کی وہ قومیں جن تک یہ خبر پہنچی ﴿ وَمَا خَلْفَهَا ﴾ اور ان قوموں کے لیے جو ان کے بعد آئیں، تاکہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہو اور وہ گناہوں سے باز آ جائیں مگر یہ نصیحت صرف اہل تقویٰ کے کام آتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔
آیت: 67 - 74
{وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ (67) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ (68) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ (69) قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ (70) قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ (71) وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (72) فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِ اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (73) ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (74)}.
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے، بے شک اللہ حکم دیتا ہے تمھیںیہ کہ ذبح کرو تم ایک گائے، انھوں نے کہا، کیا بناتا ہے تو ہمیں ہنسی مذاق؟ موسیٰ نے کہا، پناہ میں آتا ہوں میں اللہ کی، اس بات سے کہ ہو جاؤں میں جاہلوں سے(67) انھوں نے کہا، دعا کر تو ہمارے لیے اپنے رب سے، وہ بیان کرے ہمارے لیے کیسی ہے وہ گائے؟ کہا موسیٰ نے، بلاشبہ اللہ کہتا ہے کہ بے شک وہ ایک گائے ہے، نہ بوڑھی اور نہ بچی، اوسط عمر کی ہے درمیان اس کے، پس کرو وہ جو تم حکم دیے جاتے ہو(68) انھوں نے کہا، دعا کر تو ہمارے لیے اپنے رب سے، بیان کرے وہ ہمارے لیے کیسا ہے رنگ اس کا؟ کہا موسیٰ نے، اللہ فرماتا ہے بلاشبہ وہ ایک گائے ہے زرد رنگ کی، خوب گہرا ہے رنگ اس کا خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو انھوں نے کہا، دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے، بیان کرے وہ ہمارے لیے، کس قسم کی ہے وہ گائے؟ بے شک وہ گائے مشتبہ ہوگئی ہے ہم پر(69)اور یقیناً ہم، اگر چاہا اللہ نے، تو ضرور راہ پا لیں گے(70) (موسیٰ نے) کہا، بے شک اللہ فرماتا ہے کہ بلاشبہ وہ ایک گائے ہے، نہیں ہے محنت کرنے والی کہ (بذریعہ ہل) پھاڑتی ہو زمین کو اور نہیں سیراب کرتی کھیتی کو، بے عیب ہے، نہیں ہے کوئی داغ دھبہ اس میں، انھوں نے کہا، اب لایا ہے تو حق، پس ذبح کیا انھوں نے اس کو اور نہ قریب تھے وہ کہ (ذبح) کرتے(71) اور جب قتل کیا تم نے ایک نفس کو، پھر جھگڑا کیا تم نے اس کی بابت اور اللہ ظاہر کرنے والا ہے اس کو جسے تھے تم چھپاتے(72)پس کہا ہم نے، مارو تم اس مردے کو ایک ٹکڑا اس (گائے) کا، اس طرح زندہ کرے گا اللہ مردوں کواور وہ دکھاتا ہے تمھیں نشانیاں اپنی (قدرت کی) تاکہ تم سمجھو(73) پھر سخت ہو گئے دل تمھارے بعد اس کے، پس ہیں وہ مانند پتھروں کے یا (ان سے بھی) زیادہ سخت ،اور تحقیق کچھ پتھر البتہ وہ ہیں کہ پھوٹتی ہیں ان سے نہریںاور بلاشبہ کچھ ان میں سے البتہ وہ ہیں کہ پھٹ پڑتے ہیں، پس نکلتا ہے ان سے پانی ،اورتحقیق کچھ ان میں سے البتہ وہ ہیں کہ گر پڑتے ہیں اللہ کے ڈر سےاور نہیں اللہ غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو(74)
{67} أي: واذكروا ما جرى لكم مع موسى حين قتلتم قتيلاً؛ فادّارَأْتم فيه، أي: تدافعتم واختلفتم في قاتله حتى تفاقم الأمر بينكم، وكاد ـ لولا تبيين الله لكم ـ يحدث بينكم شر كبير، فقال لكم موسى في تبيين القاتل: اذبحوا بقرة، وكان من الواجب المبادرة إلى امتثال أمره وعدم الاعتراض عليه، ولكنهم أبوا إلا الاعتراض فقالوا: {أتتخذنا هزواً}؛ فقال نبي الله: {أعوذ بالله أن أكون من الجاهلين}؛ فإن الجاهل هو الذي يتكلم بالكلام الذي لا فائدة فيه وهو الذي يستهزئ بالناس، وأما العاقل فيرى أن من أكبر العيوب المزرية بالدين والعقل استهزاءه بمن هو آدمي مثله. وإن كان قد فضل عليه فتفضيله يقتضي منه الشكر لربه والرحمة لعباده: فلما قال لهم موسى ذلك علموا أن ذلك صدق، فقالوا:
[67] ان واقعات کو یاد کرو جو تمھارے اور موسیٰuکے درمیان وقوع پذیر ہوئے۔ جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا اور اس کے قاتل کے بارے میں آپس میں اختلاف کرنا اور قتل کو ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردیا حتیٰ کہ تم نے معاملے کو بہت بڑھا دیا اور اگر اللہ تعالیٰ کی توضیح نہ ہوتی تو قریب تھا کہ تم ایک بڑے شر اور فساد میں مبتلا ہو جاتے۔ حضرت موسیٰuنے قاتل کو تلاش کرنے کے لیے تمھیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا۔ تم پر فرض تھا کہ تم فوراً اس کے حکم کی تعمیل کرتے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہ کرتے مگر ہوا یہ کہ تم نے حضرت موسیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اعتراض کرنے لگے اور کہنے لگے ﴿اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا﴾ ’’کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے۔‘‘ اللہ کے نبی نے فرمایا: ﴿ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰؔهِلِیْ٘نَ﴾ ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہل بنوں۔‘‘ کیونکہ جاہل ہی ایسی بات کیا کرتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور وہی لوگوں کا تمسخر اڑایا کرتا ہے۔ عقلمند شخص یہ سمجھتا ہے کہ اپنے جیسے کسی آدمی کا مذاق اڑانا عقل و دین کا سب سے بڑا عیب ہے۔ اگرچہ اسے اس آدمی پر فضیلت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ یہ فضیلت تو تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے رب کا شکر کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئے۔ جب حضرت موسیٰuنے ان سے یہ کہا تو انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ سچ ہے۔
{68} {ادع لنا ربك يبين لنا ما هي}؛ أي ما سنُّها {قال إنه يقول إنها بقرة لا فارض}؛ أي: كبيرة، {ولا بكر}؛ أي: صغيرة، {عوان بين ذلك فافعلوا ما تؤمرون}؛ واتركوا التشديد والتعنت.
[68] کہنے لگے ﴿ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ﴾ ’’اپنے رب سے دعا کر کہ وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے؟‘‘ یعنی اس گائے کی عمر وغیرہ کیا ہے ﴿ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ﴾ ’’موسیٰ نے کہا، اللہ کہتا ہے وہ ایسی گائے ہے جو بوڑھی نہ ہو‘‘ ﴿فَارِضٌ﴾ یعنی بڑی ﴿ وَّلَا بِكْرٌ﴾ یعنی نہ ہی زیادہ چھوٹی ﴿ عَوَانٌۢ بَیْنَ ذٰلِكَؕ فَافْعَلُوْا مَا تُ٘ـؤْمَرُوْنَ﴾ ان مذکورہ دو عمروں کے درمیان متوسط عمر کی ہو۔ پس وہ کام کرو جس کا تمھیں حکم دیا جاتا ہے اور تشدد اور تکلف کو چھوڑ دو۔
{69} {قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما لونها قال إنه يقول إنها بقرة صفراء فاقع لونها}؛ أي: شديد، {تسر الناظرين}؛ من حسنها.
[69] ﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ١ۙ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا﴾ ’’انھوں نے کہا، اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ اس کا رنگ بیان کرے۔ موسیٰ نے کہا، اللہ کہتا ہے، وہ گائے ہے زرد رنگ کی، خوب گہرا ہے رنگ اس کا‘‘ یعنی خالص زرد رنگ۔ ﴿ تَ٘سُرُّ النّٰ٘ظِرِیْنَ﴾ یعنی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دیکھنے والوں کو بھلی لگے۔
{70} {قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي إن البقر تشابه علينا}؛ فلم نهتد إلى ما تريد، {وإنا إن شاء الله لمهتدون}.
[70] ﴿ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ۙ اِنَّ الْ٘بَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا﴾ ’’انھوں نے کہا، اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کر وہ بیان کرے کہ وہ کیا ہے کیونکہ گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے۔‘‘ یعنی ہمیں معلوم نہیں کہ آپ کونسی گائے چاہتے ہیں ﴿ وَاِنَّـاۤ٘ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ﴾ ’’اور اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے۔‘‘
{71} {قال إنه يقول إنها بقرة لا ذلول}؛ أي: مذللة بالعمل {تثير الأرض}؛ بالحراثة {ولا تسقي الحرث}؛ أي: ليست بسانية، {مسلمة}؛ من العيوب أو من العمل {لا شية فيها}؛ أي: لا لون فيها غير لونها الموصوف المتقدم، {قالوا الآن جئت بالحق}؛ أي: بالبيان الواضح، وهذا من جهلهم، وإلا فقد جاءهم بالحق أول مرة، فلو أنهم اعترضوا أيَّ بقرة لحصل المقصود، ولكنهم شددوا بكثرة الأسئلة؛ فشدد الله عليهم، ولو لم يقولوا إن شاء الله لم يهتدوا أيضاً إليها، {فذبحوها}؛ أي: البقرة التي وصفت بتلك الصفات، {وما كادوا يفعلون}؛ بسبب التعنت الذي جرى منهم.
[71] ﴿قَالَ اِنَّهٗ یَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ ﴾ ’’آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے کام کرنے والی نہ ہو۔‘‘ یعنی وہ (کھیتی باڑی کے کاموں میں جت کر) کمزور اور مطیع نہ ہو ﴿ تُثِیْرُ الْاَرْضَ﴾ ’’جو تتی ہو وہ زمین کو‘‘ یعنی اس سے زمینمیں ہل نہ چلایا جاتا ہو ﴿ وَ لَا تَ٘سْقِی الْحَرْثَ﴾ ’’نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو‘‘ یعنی نہ وہ رہٹ میں جتنے والی ہو۔ ﴿ مُسَلَّمَةٌ﴾ ہر قسم کے عیب سے پاک ہو اور اس سے کسی قسم کا کام نہ لیا جاتا ہو ﴿ لَّا شِیَةَ فِیْهَا﴾ ’’اس میں کوئی داغ نہ ہو‘‘ یعنی جس رنگ کا گزشتہ سطور میں ذکر ہو چکا ہے اس کے علاوہ اس میں کسی دوسرے رنگ کا کوئی نشان نہ ہو۔ ﴿ قَالُوا الْ٘ـٰٔنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ﴾ ’’انھوں نے کہا، اب لایا تو ٹھیک بات‘‘ یعنی اب تو نے گائے کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔ یہ ان کی جہالت تھی ورنہ حضرت موسیٰuنے ان کے سامنے پہلی ہی مرتبہ حق بیان کر دیا تھا۔ اگر وہ کوئی بھی گائے پیش کر دیتے تو مقصد حاصل ہو جاتا مگر انھوں نے کثرت سوال کے ذریعے سے تشدد اور تکلف کی راہ اپنائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر سختی کی۔ نیز اگر انھوں نے ’’اِنْ شَاءَ اللہ‘‘ نہ کہا ہوتا تب بھی وہ مطلوبہ گائے تک نہ پہنچ سکتے۔ ﴿ فَذَبَحُوْهَا﴾ یعنی انھوں نے اس گائے کو ذبح کر ہی ڈالا جس کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ ﴿ وَمَا كَادُوْا یَ٘فْعَلُوْنَ﴾ ان کے تشدد اور تکلف کی وجہ سے جس کا وہ اظہار کر رہے تھے، نظر نہیں آتا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں گے۔
{72 ـ 73} فلما ذبحوها قلنا لهم اضربوا القتيل ببعضها، أي: بعضو منها إما بعضو معين أو أي عضو منها فليس في تعيينه فائدة؛ فضربوه ببعضها؛ فأحياه الله، وأخرج ما كانوا يكتمون؛ فأخبر بقاتله، وكان في إحيائه ـ وهم يشاهدون ـ ما يدل على إحياء الله الموتى، لعلكم تعقلون؛ فتنزجرون عن ما يضركم.
[73-72] جب انھوں نے گائے ذبح کر ڈالی تو ہم نے ان سے کہا کہ گائے کا ایک عضو اس مقتول کو لگاؤ۔ اس سے مراد کوئی معین عضو ہے یا کوئی سا بھی عضو؟ اس کے تعین کا کوئی فائدہ نہیں۔ بس انھوں نے گائے کے کسی حصے کو مقتول کے ساتھ لگایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو ظاہر کر دیا جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں باخبر کر دیا کہ قاتل کون ہے۔ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا اس مقتول کو دوبارہ زندہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے مردوں کو زندہ کرے گا۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَؔ﴾ شاید کہ تم عقل سے کام لو اور ان کاموں سے رک جاؤ جو تمھارے لیے نقصان دہ ہیں۔
{74} {ثم قست قلوبكم}؛ أي: اشتدت وغلظت فلم تؤثر فيها الموعظة {من بعد ذلك}؛ أي: من بعد ما أنعم الله عليكم بالنعم العظيمة وأراكم الآيات، ولم يكن ينبغي أن تقسو قلوبكم لأن ما شاهدتم مما يوجب رقة القلب وانقياده، ثم وصف قسوتها بأنها {كالحجارة} التي هي أشد قسوة من الحديد، لأن الحديد؛ والرصاص إذا أذيب في النار ذاب بخلاف الأحجار، وقوله: {أو أشد قسوة}؛ أي: أنها لا تقصر عن قساوة الأحجار، وليست «أو» بمعنى بل. ثم ذكر فضيلة الأحجار على قلوبهم فقال: {وإن من الحجارة لما يتفجر منه الأنهار وإن منها لما يشقق فيخرج منه الماء وإن منها لما يهبط من خشية الله}، فبهذه الأمور فَضَلَتْ قلوبَكم. ثم توعدهم تعالى أشد الوعيد فقال: {وما الله بغافل عمَّا تعملون}، بل هو عالم بها حافظ لصغيرها وكبيرها، وسيجازيكم على ذلك أتم الجزاء وأوفاه. واعلم أن كثيراً من المفسرين رحمهم الله قد أكثروا في حشو تفاسيرهم من قصص بني إسرائيل، ونزَّلوا عليها الآيات القرآنية، وجعلوها تفسيراً لكتاب الله، محتجين بقوله - صلى الله عليه وسلم -: «حدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج». والذي أرى أنه وإن جاز نقل أحاديثهم على وجه تكون مفردة غير مقرونة ولا منزلة على كتاب الله، فإنه لا يجوز جعلها تفسيراً لكتاب الله قطعاً إذا لم تصح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، وذلك أن مرتبتها كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «لا تصدقوا أهل الكتاب ولا تكذبوهم» ، فإذا كانت مرتبتها أن تكون مشكوكاً فيها، وكان من المعلوم بالضرورة من دين الإسلام أن القرآن يجب الإيمان به والقطع بألفاظه ومعانيه، فلا يجوز أن تجعل تلك القصص المنقولة بالروايات المجهولة التي يغلب على الظن كذبها، أو كذب أكثرها معاني لكتاب الله مقطوعاً بها، ولا يستريب بهذا أحد، ولكن بسبب الغفلة عن هذا حصل ما حصل، والله الموفق.
[74] ﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُ٘لُ٘وْبُكُمْ ﴾ یعنی پھر تمھارے دل بہت سخت ہو گئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ﴾ یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمھیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمھارے دلوں کا سخت ہو جانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دلوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ كَالْحِجَارَةِ﴾ یعنی وہ سختی میں (پتھر کی مانند ہیں) جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا ﴿ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً﴾ ’’یا اس سے بھی زیادہ سخت‘‘ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں کی سختی سے کم نہیں۔ یہاں (او) (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِنَّ مِنَ الْؔحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْ٘هٰرُ١ؕ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَ٘شَّ٘قَّ٘قُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ١ؕ وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ﴾ کیونکہ ’’بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمھارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا: ﴿وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّؔا٘ تَعْمَلُ٘وْنَ﴾ یعنی وہ تمھارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمھارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے وہ تمھارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمھیں تمھارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے مفسرین (s) نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہeکے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں ’حَدِّثُوْا عَنْ بَنِی اِسْرَائِیْلَ وَلاَ حَرَجَ‘ (سنن أبی داود، العلم، باب الحديث عن بنی اسرائیل، حديث:3662)’’بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون (قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جبکہ وہ رسول اللہeسے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لیے کہ رسول اللہeکے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ’لَا تُصَدِّقُوْا اَھْلَ الْکِتَابِ وَلَا تُکَذِّبُوْھُم‘ (صحیح بخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا، حديث:4485) ’’تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔‘‘ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعییقین رکھنا فرض ہے۔ لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیںیا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں۔ یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہیے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔
آیت: 75 - 78
{أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (75) وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (76) أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (77) وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (78)}.
کیا پس تم (اے مسلمانو!) طمع رکھتے ہو کہ وہ ایمان لے آئیں گے تمھارے لیے، حالانکہ تھا ایک فریق ان میں سے، وہ سنتے تھے کلام اللہ کا ، پھر وہ تحریف کر دیتے تھے اس میں بعد اس کے کہ وہ سمجھ لیتے تھے اس (کلام) کو اور وہ جانتے تھے(75) اور جب وہ ملتے ہیں ان لوگوں سے جو ایمان لائے تو کہتے ہیں، ایمان لائے ہیں ہم بھی اور جب علیحدہ ہوتا ہے بعض ان کا بعض کی طرف تو کہتے ہیں کیا تم بیان کرتے ہو ان سے، جو کھولا اللہ نے تم پر تاکہ وہ غالب آجائیں تم پر اس کے ساتھ نزدیک تمھارے رب کے؟ کیا نہیں تم سمجھتے؟(76) کیا وہ نہیں جانتے کہ بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں؟(77) اور کچھ ان میں سے ان پڑھ ہیں نہیں جانتے وہ کتاب کو سوائے آرزوؤں کےاور نہیں ہیں وہ مگر صرف گمان کرتے(78)
{75} هذا قطع لأطماع المؤمنين من إيمان أهل الكتاب؛ أي فلا تطمعوا في إيمانهم، وأخلاقهم لا تقتضي الطمع فيهم؛ فإنهم كانوا يحرفون كلام الله من بعد ما عقلوه وعلموه، فيضعون له معانيَ ما أرادها الله؛ ليوهموا الناس أنها من عند الله، وما هي من عند الله، فإذا كانت حالهم في كتابهم الذي يرونه شرفهم ودينهم يصدون به الناس عن سبيل الله، فكيف يرجى منهم إيمان لكم؟! فهذا من أبعد الأشياء.
[75] یہاں اہل کتاب کے ایمان لانے کے بارے میں اہل ایمان کی امیدوں کو ختم کر دیا ہے کہ تم ان کے ایمان کی امید نہ رکھو۔ ان کے اخلاق ایسے ہیں جو ان کے ایمان کی امید کے متقاضی نہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھ کر اور جان بوجھ کر اس کے معانی میں تحریفکرتے ہیں۔ پس وہ اس کے لیے ایسے معانی اور مفاہیم وضع کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد نہیں ہیں تاکہ لوگ اس وہم میں مبتلا ہوں کہ یہ مفاہیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرگز نہیں۔ پس جب ان کی اس کتاب کے بارے میںیہ حالت ہے جسے وہ اپنے لیے باعث شرف اور اپنا دین قرار دیتے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے سے وہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ تب ان سے کیونکریہ امید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ تم پر ایمان لائیں گے۔ یہ بعید ترین چیز ہے۔
{76} ثم ذكر حال منافقي أهل الكتاب، فقال: {وإذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا}، فأظهروا لهم الإيمان قولاً بألسنتهم ما ليس في قلوبهم، {وإذا خلا بعضهم إلى بعض}؛ فلم يكن عندهم أحد من غير أهل دينهم قال بعضهم لبعض: {أتحدثونهم بما فتح الله عليكم}؛ أي: أتظهرون لهم الإيمان وتخبرونهم أنكم مثلهم؟ فيكون ذلك حجة لهم عليكم، يقولون إنهم قد أقروا بأن ما نحن عليه حق وما هم عليه باطل، فيحتجون عليكم بذلك عند ربكم {أفلا تعقلون}؛ أي: أفلا يكون لكم عقل فتتركون ما هو حجة عليكم؟
[76] پھر اہل کتاب کے منافقین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا﴾ ’’جب وہ ایمان والوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم ایمان لائے۔‘‘ یعنی انھوں نے اپنی زبان سے ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کیا جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ﴿ وَاِذَا خَلَا بَعْضُهُؔمْ اِلٰى بَعْضٍ﴾ یعنی جب وہ خلوت میں ہوتے ہیں اور ان کے ہم مذہبوں کے سوا ان کے پاس کوئی اور نہیں ہوتا تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: ﴿ اَتُحَدِّثُ٘وْنَهُمْ بِمَا فَ٘تَحَ اللّٰهُ عَلَیْكُمْ ﴾ ’’کیا تم ان کو وہ باتیں بیان کرتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں۔‘‘ یعنی کیا تم ان کے سامنے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو اور انھیں بتاتے ہو کہ تم ان کی مانند ہو؟ پس یہ چیز ان کے لیے تمھارے خلاف حجت بن جائے گی۔ وہ (یعنی اہل ایمان) کہیں گے کہ انھوں نے اقرار کیا کہ اہل ایمان حق پر ہیں اور جس پر وہ ہیں، وہ باطل ہے۔ پس اہل ایمان اپنے رب کے پاس تمھارے خلاف دلیل دیں گے ﴿ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ﴾ ’’کیا پس تم سمجھتے نہیں؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تم عقل سے عاری ہو کہ تم ان کے پاس وہ چیز چھوڑ رہے ہو جو تمھارے خلاف حجت ہو گی۔
{77} هذا يقوله بعضهم لبعض: {أو لا يعلمون أن الله يعلم ما يسرون وما يعلنون}، فهم وإن أسروا ما يعتقدونه فيما بينهم، وزعموا أنهم بإسرارهم لا يتطرق عليهم حجة للمؤمنين؛ فإن هذا غلط منهم وجهل كبير؛ فإن الله يعلم سرهم وعلنهم؛ فيظهر لعباده ما هم عليه.
[77] ﴿ اَوَ لَا یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ﴾ ’’کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہیں۔‘‘ ہر چند کہ وہ اپنے ان عقائد کو چھپاتے ہیں جو ان کے مابین معروف ہیں اور وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ انھوں نے ان عقائد کو چھپایا ہوا ہے تاکہ یہ چیز اہل ایمان کے لیے ان کے خلاف دلیل نہ بنے تاہم وہ اس بارے میں غلطی پر ہیں اور بہت بڑی جہالت میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے۔ اس کے بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر کر دے گا۔
{78} {ومنهم}؛ أي: من أهل الكتاب {أميون}؛ أي: عوام، وليسوا من أهل العلم {لا يعلمون الكتاب إلا أماني}؛ أي: ليس لهم حظ من كتاب الله إلا التلاوة فقط، وليس عندهم خبر بما عند الأولين الذين يعلمون حق المعرفة حالهم، وهؤلاء إنما معهم ظنون وتقاليد لأهل العلم منهم. فذكر في هذه الآيات علماءهم وعوامهم ومنافقيهم ومن لم ينافق منهم، فالعلماء منهم متمسكون بما هم عليه من الضلال، والعوام مقلدون لهم، لا بصيرة عندهم؛ فلا مطمع لكم في الطائفتين.
[78] ﴿ وَمِنْهُمْ﴾ ’’اور کچھ ان میں سے‘‘ یعنی اہل کتاب میں سے ﴿ اُمِّیُّوْنَ﴾ ان پڑھ عوام بھی ہیں جو اہل علم میں شمار نہیں ﴿ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ﴾ سوائے تلاوت کے، اللہ کی کتاب میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کے پاس اس چیز کی خبر بھی نہیں جو پہلوں کے پاس تھی جن کے حالات یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ان کے پاس محض ظن اور گمان اور اہل علم کی تقلید کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں اہل کتاب کے علماء، عوام اور منافقین اور وہ جنھوں نے نفاق اختیار نہیں کیا، سب کا ذکر کیا ہے۔ پس ان کے علماء اپنی گمراہی کے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور عوام بصیرت سے محروم ہیں اور ان علماء کی تقلید کرتے ہیں۔ پس ان دونوں گروہوں کے بارے میں تمھیں کوئی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
آیت: 79
{فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ (79)}.
پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لیے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے ، پھر کہتے ہیں،یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ لیں اس کے بدلے میں مول تھوڑا سا، پس ہلاکت ہے ان کے لیے بوجہ اس کے جو لکھا ان کے ہاتھوں نے،اور ہلاکت ہے ان کے لیے بہ سبب اس کے جو وہ کماتے ہیں(79)
{79} توعد تعالى المحرفين للكتاب الذين يقولون لتحريفهم وما يكتبون {هذا من عند الله}، وهذا فيه إظهار الباطل وكتم الحق، وإنما فعلوا ذلك مع علمهم، {ليشتروا به ثمناً قليلاً}، والدنيا كلها من أولها إلى آخرها ثمن قليل، فجعلوا باطلهم شَرَكاً يصطادون به ما في أيدي الناس. فظلموهم من وجهين: من جهة تلبيس دينهم عليهم، ومن جهة أخذ أموالهم بغير حق بل بأبطل الباطل، [وذلك] أعظم ممن يأخذها غصباً وسرقة ونحوهما، ولهذا توعدهم بهذين الأمرين، فقال: {فويل لهم مما كتبت أيديهم}؛ أي من التحريف والباطل {وويل لهم مما يكسبون}؛ من الأموال، والويل شدة العذاب والحسرة، وفي ضمنها الوعيد الشديد. قال شيخ الإسلام لما ذكر هذه الآيات من قوله: أفتطمعون إلى يكسبون: «فإن الله ذم الذين يحرفون الكلم عن مواضعه، وهو متناول لمن حمل الكتاب والسنة على ما أصَّلَه من البدع الباطلة، وذم الذين لا يعلمون الكتاب إلا أماني وهو متناول لمن ترك تدبر القرآن ولم يعلم إلا مجرد تلاوة حروفه، ومتناول لمن كتب كتاباً بيده مخالفاً لكتاب الله لينال به دنيا وقال: إنه من عند الله، مثل أن يقول: هذا هو الشرع والدين، وهذا معنى الكتاب والسنة، وهذا [معقول] السلف والأئمة، وهذا هو أصول الدين الذي يجب اعتقاده على الأعيان أو الكفاية، ومتناول لمن كتم ما عنده من الكتاب والسنة، لئلا يَحْتَجَّ به مخالفه في الحق الذي يقوله، وهذه الأمور كثيرة جداً في أهل الأهواء جملة، كالرافضة [والجهمية ونحوهم من أهل الأهواء والكلام، وفي أهل الأهواء] وتفصيلاً مثل كثير من المنتسبين إلى الفقهاء ... » انتهى.
[79] اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے لکھ کر اور اپنی تحریف کے بارے میں کہتے ہیں: ﴿هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ﴾ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اظہار باطل اور کتمان حق ہے۔ اور انھوں نے علم رکھنے کے باوجود یہ کیا ﴿ لِیَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا﴾ ’’تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی قیمت حاصل کریں‘‘ اور تمام دنیا اول سے لے کر آخر تک کتاب اللہ کے مقابلے میں بہت کم قیمت ہے۔ پس انھوں نے اپنے باطل کو ایک جال بنا رکھا ہے جس میں لوگوں کو پھانس کر ان کا مال ہتھیاتے ہیں۔ پس وہ لوگوں پر دو پہلوؤں سے ظلم کرتے ہیں۔ (۱) ایک پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں پر ان کے دین کو چھپاتے ہیں۔ (۲) اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق بلکہ باطل ترین طریقے سے ہڑپ کرتے ہیں اور اس کی برائی چوری اور غصب کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ پس ان دو امور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی ہے۔ ﴿ فَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَیْدِیْهِمْ﴾ ’’پس ہلاکت ہے ان کے لیے اس سے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھا۔‘‘ یعنی جو تحریف کی اور باطل تحریریں لکھیں۔ ﴿ وَوَیْلٌ لَّهُمْ مِّمَّؔا یَكْ٘سِبُوْنَ﴾ یعنیوہ مال جو وہ باطل طریقے سے کماتے ہیں۔ (ویل) عذاب کی شدت اور حسرت کو کہا جاتا ہے اسی کے ضمن میں سخت وعید بھی آ جاتی ہے۔ شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ﴿اَفَتَطْمَعُوْنَ﴾سے لے کر ﴿یَكْسِبُوْنَ﴾ تک آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کر کے ان کو اصل مفہوم سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کتاب و سنت کو اپنی بدعات باطلہ پر محمول کرتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی مذمت فرمائی ہے جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے اپنی خواہشات اور آرزوؤں کے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تدبر قرآن کے سر نہاں کو ترک کر دیتے ہیں اور اس کے حروف کی مجرد تلاوت کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ وعید اس شخص کے لیے بھی ہے جو محض دنیا کمانے کے لیے کوئی ایسی کتاب لکھتا ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ یہ شریعت اور دین ہے یہ کتاب و سنت کامعنی ہے یہ سلف امت اور ائمہ کرام کی تعبیرات ہیں اور یہ دین کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر اعتقاد رکھنا فرض عینیا فرض کفایہ ہے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت کے علم کو محض اس وجہ سے چھپاتے ہیں کہ کہیں ان کے مخالفین اس کو اپنے حق میں ان کے خلاف دلیل نہ بنا لیں۔ اہل اھواء و بدعات میں بالجملہ یہ امور بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، مثلاً روافض وغیرہ اور تفصیلاًیہ امور بہت سے ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو ائمہ فقہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘
آیت: 80 - 82
{وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (80) بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (81) وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (82)}.
اور کہا انھوں نے، ہر گز نہیں چھوئے گی ہمیں آگ مگر چند دن گنتی کے، کہہ دیجیے! کیا لیا ہے تم نے اللہ سے کوئی عہد؟ پھر تو ہرگز نہیں خلاف کرے گا اللہ اپنے عہد کے یا کہتے ہو تم اللہ پر وہ بات جو تم نہیں جانتے؟ (80)کیوں نہیں! جس نے کمائی کوئی برائی اور گھیر لیا اس کو اس کی برائی نے، پس وہی لوگ ہیں دوزخی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(81) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل کیے انھوں نے نیک،یہی لوگ ہیں جنتی، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے(82)
{80} ذكر أفعالهم القبيحة، ثم ذكر ـ مع هذا ـ أنهم يزكون أنفسهم، ويشهدون لها بالنجاة من عذاب الله والفوز بثوابه، وأنهم لن تمسهم النار إلا أياماً معدودة؛ أي قليلة تعد بالأصابع، فجمعوا بين الإساءة والأمن، ولما كان هذا مجرد دعوى رد تعالى عليهم؛ فقال: {قل}؛ لهم يا أيها الرسول، {أتخذتم عند الله عهداً}؛ أي: بالإيمان به وبرسله وبطاعته، فهذا الوعد الموجب لنجاة صاحبه الذي لا يتغير ولا يتبدل {أم تقولون على الله مالا تعلمون}؛ فأخبر تعالى أن صدق دعواهم متوقفة على أحد هذين الأمرين اللذين لا ثالث لهما. إما أن يكونوا قد اتخذوا عند الله عهداً؛ فتكون دعواهم صحيحة. وإما أن يكونوا متقولين عليه؛ فتكون كاذبة فيكون أبلغ لخزيهم وعذابهم، وقد عُلِم من حالهم أنهم لم يتخذوا عند الله عهداً لتكذيبهم كثيراً من الأنبياء حتى وصلت بهم الحال إلى أن قتلوا طائفة منهم، ولنكولهم عن طاعة الله ونقضهم المواثيق، فتعين بذلك أنهم متقولون مختلقون قائلون عليه ما لا يعلمون، والقول عليه بلا علم من أعظم المحرمات وأشنع القبيحات.
[80] اللہ تعالیٰ نے ان کے افعال بد کا ذکر کیا پھر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو پاک (یعنی تزکیہ شدہ) قرار دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات یافتہ اور اس کے ثواب کے مستحق ہوں گے اور یہ کہ وہ جہنم میں اگر گئے بھی تو جہنم کی آگ انھیں چند دن کے سوا ہرگز نہیں چھوئے گی۔ یعنی بہت ہی کم دنوں کے لیے جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پس وہ بدی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذاب سے محفوظ بھی سمجھتے ہیں۔ چونکہ یہ ان کا محض دعویٰ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کیتردید کرتے ہوئے فرمایا ﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی اے رسول ان سے کہہ دو! ﴿اَ٘تَّؔخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰهِ عَهْدًا﴾ یعنی کیا تم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء و رسل پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت کر کے اللہ تعالیٰ سے عہد لے رکھا ہے۔ پس یہ وعدہ تو یقیناً صاحب وعدہ کی نجات کا موجب ہے جس میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ ﴿ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’یا تم اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو جس کا تمھیں علم ہی نہیں۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کے دعوے کی صداقت ان دو امور میں سے ایک پر موقوف ہے۔ تیسریکوئی چیز نہیں۔ (۱)یا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ سے نجات کا کوئی عہد لیا ہو گا تب ان کا دعویٰ صحیح ہے۔ (۲)یایہ لوگ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے ہیں۔ تب ان کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ بس یہ بہتان ان کی رسوائی اور عذاب کے لیے کافی ہے۔ ان کے حالات ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عہد عطا نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ انھوں نے بے شمار انبیاء کی تکذیب کی تھی حتیٰ کہ ان کی حالت تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ انبیاء کا ایک گروہ ان کے ہاتھوں قتل ہوا، نیز انھوں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے منہ موڑا اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہدوں کو توڑا۔ پس اس سے اس بات کا تعین ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھ رہے اور اس کی بابت ایسی بات کہہ رہے ہیں جس کو وہ خود نہیں جانتے اور علم کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی بات لگانا، سب سے بڑا حرام اور سب سے بڑی برائی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سب کے لیے ایک عام حکم بیان کیا ہے جس میں بنی اسرائیل اور دیگر تمام لوگ داخل ہیں وہ ایک ایسا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حکم ہو ہی نہیں سکتا نہ کہ ان کی آرزوئیں اور دعوے، جووہ ہلاک ہونے والوں اور نجات پانے والوں کی بابت کرتے ہیں۔
{81} {من كسب سيئة}؛ وهو نكرة في سياق الشرط؛ فيعم الشرك فما دونه، والمراد به الشرك، هنا بدليل قوله: {وأحاطت به خطيئته}؛ أي: أحاطت بعاملها فلم تدع له منفذاً، وهذا لا يكون إلا الشرك، فإن من معه الإيمان لا تحيط به خطيئته، {فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}؛ وقد احتج بها الخوارج على كفر صاحب المعصية، وهي حجة عليهم كما ترى، فإنها ظاهرة في الشرك، وهكذا كل مُبْطِل يحتَجُّ بآية أو حديث صحيح على قوله الباطل؛ فلا بد أن يكون فيما احتج به حجة عليه.
[81] پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلٰی ﴾ یعنی معاملہ یوں نہیں جس طرح تم نے بیان کیا ہے کیونکہیہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ حقیقتیہ ہے کہ ﴿ مَنْ كَسَبَ سَیِّئَةً﴾ ’’جس نے کوئی برائی کمائی‘‘یہاں ﴿سَیِّئَۃً﴾ برائی شرط کے سیاق میں نکرہ استعمال ہوئی ہے لہٰذا اس کے عموم میں شرک اور اس سے کمتر تمام برائیاں داخل ہیں۔ لیکنیہاں اس سے مراد شرک ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ﴿ وَّاَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْٓ٘ـــَٔتُهٗ ﴾ ’’یعنی برائی کا ارتکاب کرنے والے کو اس کی برائی نے گھیر لیا‘‘ اور اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور یہ شرک کے علاوہ کوئی اور برائی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ جو ایمان سے بہرہ ور ہے برائی اسے گھیر نہیں سکتی۔ ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ﴾ ’’پس وہ آگ کے مستحق ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘ اس آیت کریمہ سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے حالانکہ یہ تو ان کے خلاف دلیل ہے کیونکہیہ تو ظاہری طور پر شرک کے بارے میں ہے۔ اس طرح ہر باطل پسند جو قرآن مجید کی کسی آیتیا کسی صحیح حدیث سے اپنے باطل نظریئے پر استدلال کرتا ہے تو استدلال خود اس کے خلاف ایک قوی دلیل ہوتا ہے۔
{82} {والذين آمنوا}؛ بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر {وعملوا الصالحات}؛ ولا تكون الأعمال صالحة إلا بشرطين: أن تكون خالصة لوجه الله، متبعاً بها سنة رسوله. فحاصل هاتين الآيتين أن أهل النجاة والفوز أهل الإيمان والعمل الصالح، والهالكون أهل النار المشركون بالله الكافرون به.
[82] ﴿ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالی، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ ﴿ وَعَمِلُوا الصّٰؔلِحٰؔتِ﴾ اور اعمال صالحہ کیے اور اعمال مندرجہ ذیل دو شرائط کے بغیر اعمال صالحہ کے زمرے میں نہیں آتے۔ (۱) خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں۔ (۲) رسول اللہeکی سنت کے مطابق ہوں۔ ان دو آیتوں کا حاصل یہ ہے کہ نجات اور فوز و فلاح کے مستحق صرف نیک کام کرنے والے اہل ایمان ہیں اور ہلاک ہونے والے جہنمی، وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور اس کے ساتھ کفر کرتے ہیں۔
آیت: 83
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ (83)}.
اور جب لیا ہم نے پختہ وعدہ بنو اسرائیل سے کہ نہ عبادت کرو تم مگر اللہ کی، اور ماں باپ سے نیک سلوک کرنا اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے،اور کہو تم لوگوں سے (بات) اچھی، اور قائم کرو تم نماز اور دو تم زکاۃ، پھر پھر گئے تم مگر تھوڑے تم میں سے،اور تم اعراض کرنے والے ہو(83)
{83} فهذه الشرائع من أصول الدين التي أمر الله بها في كل شريعة لاشتمالها على المصالح العامة في كل زمان ومكان؛ فلا يدخلها نسخ، كأصل الدين، ولهذا أمرنا الله بها في قوله: {واعبدوا الله ولا تشركوا به شيئاً}؛ إلى آخر الآية. فقوله: {وإذ أخذنا ميثاق بني إسرائيل}؛ هذا من قسوتهم أن كل أمر أمروا به استعصوا، فلا يقبلونه إلا بالأيمان الغليظة والعهود الموَثَّقة {لا تعبدون إلا الله}؛ هذا أمر بعبادة الله وحده ونهي عن الشرك به، وهذا أصل الدين فلا تقبل الأعمال كلها إن لم يكن هذا أساسها، فهذا حق الله تعالى على عباده، ثم قال: {وبالوالدين إحساناً}؛ أي أحسنوا بالوالدين إحساناً، وهذا يعم كل إحسان قولي وفعلي مما هو إحسان إليهم، وفيه النهي عن الإساءة إلى الوالدين أو عدم الإحسان والإساءة؛ لأن الواجب الإحسان، والأمر بالشيء نهي عن ضده، وللإحسان ضدان: الإساءة وهي أعظم جرماً، وترك الإحسان بدون إساءة وهذا محرم لكن لا يجب أن يلحق بالأول. وكذا يقال في صلة الأقارب واليتامى والمساكين، وتفاصيل الإحسان لا تنحصر بالعد بل تكون بالحد كما تقدم. ثم أمر بالإحسان إلى الناس عموماً فقال: {وقولوا للناس حسناً}؛ ومن القول الحسن أمرهم بالمعروف ونهيهم عن المنكر وتعليمهم العلم وبذل السلام والبشاشة وغير ذلك من كل كلام طيب، ولما كان الإنسان لا يسع الناس بماله أُمر بأمر يقدر به على الإحسان إلى كل مخلوق وهو الإحسان بالقول، فيكون في ضمن ذلك النهي عن الكلام القبيح للناس حتى للكفار، ولهذا قال تعالى: {ولا تجادلوا أهل الكتاب إلا بالتي هي أحسن}؛ ومن أدب الإنسان الذي أدب الله به عباده أن يكون الإنسان نزيهاً في أقواله وأفعاله، غير فاحش ولا بذيء ولا شاتم ولا مخاصم، بل يكون حسن الخلق واسع الحلم، مجاملاً لكلِّ أحد، صبوراً على ما يناله من أذى الخلق امتثالاً لأمر الله ورجاءً لثوابه. ثم أمرهم بإقامة الصلاة وإيتاء الزكاة لما تقدم أن الصلاة متضمنة للإخلاص للمعبود، والزكاة متضمنة للإحسان إلى العبيد، ثم بعد هذا الأمر لكم بهذه الأوامر الحسنة التي إذا نظر إليها البصير العاقل، عرف أن من إحسان الله على عباده أن أمرهم بها وتفضل بها، عليهم وأخذ المواثيق عليكم {توليتم}؛ على وجه الإعراض؛ لأن المتولي قد يتولى وله نية رجوع إلى ما تولى عنه، وهؤلاء ليس لهم رغبة ولا رجوع في هذه الأوامر، فنعوذ بالله من الخذلان. وقوله: {إلا قليلاً منكم}؛ هذا استثناء؛ لئلا يوهم أنهم تولوا كلهم، فأخبر أن قليلاً منهم عصمهم الله وثبتهم.
[83] پس یہ احکام ان اصول دین میں سے ہیں، جن پر عمل کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر شریعت میں دیا، کیونکہیہ احکام ہر زمان و مکان میں مصالح عامہ پر مشتمل ہیں۔ دین میں ان کی حیثیت بنیاد کی سی ہے جو منسوخ نہیں ہو سکتی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰنے ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کا حکم اپنے اس فرمان میں دیا ہے: ﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُ٘شْ٘رِكُوْا بِهٖ شَیْـًٔـا ﴾ (النساء : 4؍36) ’’اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو۔‘‘ ﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ﴾ ’’اس وقت کو یاد کرو، جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔‘‘ یہ ان کی سنگدلی ہی تھی کہ جب بھی انھیں کسی بات کا حکم دیا جاتا تو وہ نافرمانی کرتے، اس لیے وہ پختہ قسموں اور مضبوط عہدوں کے بغیر کسی حکم کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے۔ ﴿ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ﴾ یہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ دین کی بنیاد ہے اگر یہ بنیاد نہ ہو تو کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر حق ہے۔ پھر فرمایا: ﴿ وَبِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا﴾ یعنی اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آؤ۔ اس میں ہر قسم کا حسن سلوک شامل ہے۔ اس زمرے میں قولی و فعلی اور ہر وہ رویہ شامل ہے جس پر حسن سلوک کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ برے سلوک یا عدم حسن سلوک کی ممانعت ہے۔ کیونکہ والدین کے ساتھ حسن سلوک فرض ہے اور کسی چیز کی فرضیت کے حکم سے لازم آتا ہے کہ اس کی ضد ممنوع ہو۔ اور دو چیزیں حسن سلوک کے مخالف ہیں۔ (۱)برا سلوک کرنا، یہ سب سے بڑا جرم ہے۔ (۲) بغیر برائی کیے، حسن سلوک نہ کرنا۔ اگرچہ والدین کے ساتھ اس قسم کا رویہ بھی حرام ہے مگر اس رویئے کو اول الذکر رویئے سے ملحق کرنا ضروری نہیں۔ رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ سلوک میں بھی اسی اصول کا اطلاق ہوتا ہے حسن سلوک (احسان) کی تفصیلات دائرہ شمار سے باہر ہیں البتہ جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اس کی کچھ حدود ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام لوگوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آیا جائے چنانچہ فرمایا: ﴿ وَقُ٘وْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾ ’’یعنی لوگوں سے اچھی بات کہنا۔‘‘ مندرجہ ذیل چیزیں ’’قول حسن‘‘ (یعنی اچھی بات) کے زمرے میں آتی ہیں۔ (۱)لوگوں کو نیکی کا حکم دینا۔ (۲) ان کو بری باتوں سے روکنا۔ (۳) ان کو علم سکھانا۔ (۴) ان میں سلام پھیلانا۔ (۵) خندہ پیشانی اور بشاشت کا اظہار کرنا۔ (۶) ان کے علاوہ دیگر اچھی باتیں۔ چونکہ ہر انسان اپنے مال کے ذریعے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے اسے ایک ایسی چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے ذریعے سے وہ تمام مخلوق کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی قدرت رکھتا ہے اور وہ ہے ’’قول حسن‘‘ اسی کے ضمن میں لوگوں کے ساتھ بری گفتگو کرنے کی ممانعت آ جاتی ہے، حتی کہ کفار کے ساتھ بھی کلام قبیح کرنا ممنوع ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَلَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ ﴾ (العنکبوت: 29؍46) ’’اہل کتاب کے ساتھ بحث نہ کرو مگر ایسے طریقے سے جو سب سے اچھا ہو۔‘‘ انسانی آداب میں سے، جن کی تعلیم اللہ نے اپنے بندوں کو دی ہے، یہ بھی ہے کہ انسان اپنے اقوال اور افعال میں پاکیزہ رہے، فحش گوئی اور بے ہودہ باتوں سے اجتناب کرے، گالی گلوچ اور سب و شتم کرنے اور لڑائی جھگڑے سے باز رہے۔ بلکہ اس کے برعکس حسن خلق، بے پایاں حلم، ہر ایک کے ساتھ اچھے سلوک اور مخلوق کی ایذا رسانی پرصبر کا مظاہرہ کرے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت اور ثواب کی امید میں کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں نماز قائم کرنے اور زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان کیا جاچکا ہے کہ نماز معبود کے لیے اخلاص کو اور زکاۃ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کو متضمن ہے۔ ﴿ ثُمَّ﴾ ’’پھر‘‘ اللہ تعالیٰ کا تمھیں ان اچھے کاموں کا حکم دینے کے بعد، جن کو ایک دانش مند دیکھتا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کا بندوں پر ایک احسان ہے کہ اس نے ان باتوں کا انھیں حکم دیا اور اس طرح انھیں اپنے فضل و کرم سے نوازا، اور ان سے عہدومیثاق لیا۔ ﴿ تَوَلَّیْتُمْ﴾ یعنی تم نے ان احکام سے روگردانی کرتے ہوئے پیٹھ پھیر لی، اس لیے کہ پیٹھ پھیر کر جانے والا کبھی کبھی واپس لوٹنے کی نیت سے بھی پیٹھ پھیر کر جاتا ہے، مگر یہ لوگ تو احکام الٰہی میں سرے سے کوئی رغبت ہی نہیں رکھتے اور نہ ان کی طرف لوٹنے کا کوئی ارادہ ہی رکھتے ہیں۔ فَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْخَذْلَانِ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اِلَّا قَلِیْلًا مِّؔنْكُمْ﴾ ’’مگر تھوڑے لوگ تم میں سے‘‘ ایک استثناء ہے تاکہ اس وہم کا ازالہ ہو جائے کہ تمام لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام سے روگردانی کی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ چند لوگ ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور ان کو استقامت اور ثابت قدمی عطا کی۔
آیت: 84 - 86
{وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (84) ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85) أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (86)}.
اور جب لیا ہم نے پختہ وعدہ تم سے کہ نہ بہاؤ تم خون اپنے (آپس میں) اور نہ نکالو تم اپنے آپ کو اپنے گھروں سے، پھر اقرار کیا تم نے اور تم شاہد ہو(84) پھر تم ہی وہ ہو کہ (اس کے بعد بھی) قتل کرتے ہو اپنے آپ (اپنوں) کو اور نکال دیتے ہو ایک فریق کو اپنے میں سے ان کے گھروں سے، مدد کرتے ہو تم ایک دوسرے کے خلاف ساتھ گناہ اور ظلم کے، اور اگر آئیں وہ تمھارے پاس قیدی ہو کر تو تم فدیہ دے کر چھڑاتے ہو انھیں، حالانکہ حرام کیا گیا تھا تم پر نکال دینا ان کا، کیا پس تم ایمان لاتے ہو ساتھ ایک حصۂ کتاب کے اور کفر کرتے ہو ساتھ دوسرے حصے کے؟ پس نہیں ہے سزا اس شخص کی جو کرے یہ کام تم میں سے، مگر رسوائی زندگانیٔ دنیا میں اور دن قیامت کے پھیرے جائیں گے وہ طرف سخت ترین عذاب کی اور نہیں ہے اللہ غافل اس سے جو تم عمل کرتے ہو(85) یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے خرید لی زندگی دنیا کی بدلے آخرت کے، پس نہ ہلکا کیا جائے گا ان سے عذاب اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے(86)
{84 ـ 85} وهذا الفعل المذكور في هذه الآية فعل للذين كانوا في زمن الوحي بالمدينة، وذلك أن الأوس والخزرج ـ وهم الأنصار ـ كانوا قبل مبعث النبي - صلى الله عليه وسلم - مشركين، وكانوا يقتتلون على عادة الجاهلية، فنزلت عليهم الفرق الثلاث من فرق اليهود: بنو قريظة، وبنو النضير، وبنو قينقاع، فكل فرقة منهم حالفت فرقة من أهل المدينة، فكانوا إذا اقتتلوا أعان اليهودي حليفه على مقاتليه الذين يُعِينونهم الفرقة الأخرى من اليهود، فيقتل اليهوديُ اليهوديَ، ويخرجه من دياره إذا حصل جلاء ونهب، ثم إذا وضعت الحرب أوزارها، وكان قد حصل أسارى بين الطائفتين فدى بعضهم بعضاً، والأمور الثلاثة كلها قد فرضت عليهم: ففرض عليهم أن لا يسفك بعضهم دم بعض، ولا يخرج بعضهم بعضاً، وإذا وجدوا أسيراً منهم وجب عليهم فداؤه، فعملوا بالأخير وتركوا الأولين، فأنكر الله عليهم ذلك فقال: {أفتؤمنون ببعض الكتاب}؛ وهو فداء الأسير {وتكفرون ببعض}؛ وهو القتل والإخراج، وفيها دليل على أن الإيمان يقتضي فعل الأوامر واجتناب النواهي، وأن المأمورات من الإيمان. قال تعالى: {فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا}؛ وقد وقع ذلك فأخزاهم الله، وسلط رسوله عليهم فقتل من قتل، وسبى من سبى منهم، وأجلى من أجلى، {ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب}؛ أي: أعظمه، {وما الله بغافل عما تعملون}؛ ثم أخبر تعالى عن السبب الذي أوجب لهم الكفر ببعض الكتاب والإيمان ببعضه، فقال:
[85-84] آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہeکی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی میںیہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آکر وہاں رہنا شروع کر دیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ (دفاعی) معاہدہ کر لیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوںیہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسااوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلاوطن کر دیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہو جاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کے جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔ یہ تینوں امور، جن کییہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کیے گئے تھے۔ (۱) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔ (۲) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔ (۳) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لیے ضروری ہے۔ پس ان لوگوں نے آخری بات پر تو عمل کیا اور پہلی دو باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ ان کے اس رویئے پر اللہ تعالیٰ نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَؔ۠ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ﴾ ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو‘‘ اس سے مراد ہے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ دینا ﴿ وَ تَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ ’’اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘ اس سے مراد ہے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالنا۔ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کیا جائے اور اس کی نواہی سے اجتناب کیا جائے، نیزیہ کہ تمام مامورات ایمان میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا، اس کو اس کی سزا دنیا میںرسوائی کے سوا کوئی اور نہیں ملے گی۔‘‘ اور اس رسوائی کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں رسوا کیا اور ان پر اپنے رسول کو غلبہ عطا کیا۔ ان میں سے کسی کو قتل کر دیا گیا اور کسی کو غلام بنا لیا گیا اور کسی کو جلاوطن کر دیا گیا ﴿ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِیُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ ’’اورقیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ یعنی قیامت کے روز کا عذاب دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہو گا ﴿ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کیا سبب تھا جو اس بات کا موجب بنا کہ وہ کتاب اللہ کے کچھ حصے پر ایمان لائیں اور کچھ حصے کا انکار کر دیں۔
{86} {أولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالآخرة}؛ توهموا أنهم إن لم يعينوا حلفاءهم حصل لهم عار فاختاروا النار على العار، فلهذا قال: {فلا يخفف عنهم العذاب}؛ بل هو باقٍ على شدته، ولا يحصل لهم راحة بوقت من الأوقات {ولا هم ينصرون}؛ أي: يدفع عنهم مكروه.
[86] چنانچہ فرمایا: ﴿اُولٰٓىِٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ﴾ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا‘‘یعنی انھیں وہم لاحق تھا کہ اگر انھوں نے اپنے حلیفوں کی مدد نہ کی تو یہ عار کی بات ہے پس انھوں نے عار کے بدلے میں آگ کو چن لیا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَلَا یُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ ﴾ ’’پس ان سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا‘‘ یعنی عذاب کی شدت ہمیشہ رہے گی اور کسی وقت بھی انھیں راحت نصیب نہ ہو گی ﴿ وَلَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ﴾ ’’اور نہ ان کی مدد کی جائے گی‘‘یعنی ان سے عذاب کو نہیں ہٹایا جائے گا۔
آیت: 87
{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ (87)}.
اور تحقیق دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے در پے بھیجے ہم نے بعد اس کے رسول اور دیے ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو واضح دلائل (معجزات) اور قوت دی ہم نے اس کو ساتھ روح القدس (جبریل) کے، کیا پس جب بھی آیا تمھارے پاس کوئی رسول ساتھ اس چیز کے جس کو نہ چاہتے تھے نفس تمھارے، تو تکبر کیا تم نے، پھر ایک فریق کو جھٹلایا تم نے اور ایک فریق کو قتل کرتے رہے تم(87)
{87} يمتنُّ تعالى على بني إسرائيل أن أرسل إليهم كليمه موسى وآتاه التوراة، ثم تابع من بعده بالرسل الذين يحكمون بالتوراة، إلى أن ختم أنبياءهم بعيسى [بن مريم] عليه السلام وآتاه من الآيات البينات ما يؤمن على مثله البشر {وأيدناه بروح القدس}؛ أي: قواه الله بروح القدس، قال أكثر المفسرين إنه جبريل عليه السلام، وقيل إنه الإيمان الذي يؤيد الله به عباده، ثم مع هذه النعم التي لا يُقدَر قدرُها لمَّا أتوكم {بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم}؛ عن الإيمان بهم، {ففريقاً}؛ منهم، {كذبتم وفريقاً تقتلون}؛ فقدمتم الهوى على الهدى وآثرتم الدنيا على الآخرة، وفيها من التوبيخ والتشديد ما لا يخفى.
[87] ﴿ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ﴾ ’’اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی‘‘ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنے احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے اپنے کلیم حضرت موسیٰuکو ان میں مبعوث فرمایا، ان کو تورات عطا کی۔ پھر حضرت موسیٰuکے بعد ان میں پے در پے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے جو تورات کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے آخری نبی حضرت عیسیٰuکو مبعوث فرمایا اور انھیں واضح نشانیاں عطا کیں جن پر انسان ایمان لے آتا ہے۔ ﴿ وَاَیَّؔدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ﴾ یعنی ’’حضرت عیسیٰu کو روح القدس کے ذریعے تقویت دی۔‘‘ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد حضرت جبرئیلuہیں۔ بعض کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ ایمان ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو قوت اور استقامت عطا کرتا ہے۔ پھر ان نعمتوں کے باوجود، جن کی قدروعظمت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا، جب وہ تمھارے پاس وہ کچھ لائے ﴿ بِمَا لَا تَهْوٰۤى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْـبَرْتُمْ﴾ ’’جن کو تمھارا دل نہیں چاہتا تھا تو تم نے (ایمان لانے کی بجائے،) تکبر کیا۔‘‘ ﴿ فَفَرِیْقًا ﴾ یعنی انبیاء میں سے ایک فریق کو ﴿ كَذَّبْتُمْ١ٞ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ﴾ ’’تم نے جھٹلایا اور ایک فریق کو تم نے قتل کر دیا۔‘‘ پس تم نے خواہشات نفس کو ہدایت پر مقدم رکھا اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ اس آیت کریمہ میں جو زجر و توبیخ اور تشدید ہے، وہ ڈھکی چھپی نہیں۔
آیت: 88
{وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ (88)}.
اور کہا انھوں نے ہمارے دل غلافوں میں ہیں (نہیں)بلکہ لعنت کی ہے ان پر اللہ نے بوجہ ان کے کفر کے، پس کم لوگ ہی ایمان لاتے ہیں(88)
{88} أي: اعتذروا عن الإيمان لما دعوتهم إليه يا أيها الرسول بأن قلوبهم غلف أي عليها غلاف وأغطية فلا تفقه ما تقول، يعني فيكون لهم ـ بزعمهم ـ عذر لعدم العلم، وهذا كذب منهم، فلهذا قال تعالى: {بل لعنهم الله بكفرهم}؛ أي: أنهم مطرودون ملعونون بسبب كفرهم؛ فقليلاً المؤمن منهم، أو قليلاً إيمانهم، وكفرهم هو الكثير.
[88] اے رسول(e)جب آپ ان کو ایمان کی دعوت دیتے ہیں تو یہ لوگ معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہوئے ہیں،یعنی ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اس لیے ہم تمھاری بات کو سمجھ نہیں سکتے۔ گویایہ ان کے گمان کے مطابق عدم علم کا عذر ہے اور یہ ان کا جھوٹ ہے، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُ٘فْرِهِمْ﴾ یعنی ’’وہ اپنے کفر کے سبب سے ملعون اور دھتکارے ہوئے ہیں‘‘ اس لیے ان میں سے بہت ہی قلیل لوگ ایمان لائیں گے۔ یا اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کا ایمان بہت ہی قلیل ہے اور ان کا کفر بہت زیادہ ہے۔
آیت: 89 - 90
{وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ (89) بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ (90)}.
اور جب آگئی ان کے پاس کتاب اللہ کی طرف سے، جو تصدیق کرنے والی ہے اس (کتاب) کی جو ان کے پاس ہے اور تھے وہ پہلے اس سے فتح مانگتے خلاف ان لوگوں کے جنھوں نے کفر کیا، پھر جب آگیا ان کے پاس وہ (حق) جس کو انھوں نے پہچان لیا تو کفر کیا انھوں نے ساتھ اس کے، سو لعنت ہے اللہ کی اوپر کافروں کے(89) بری ہے وہ چیز کہ بیچا انھوں نے بدلے اس کے اپنے نفسوں کو، یہ کہ وہ کفر کرتے ہیں ساتھ اس چیز کے جو نازل کی اللہ نے، حسد کرتے ہوئے اس سے کہ نازل کرے اللہ فضل اپنا اوپر جس کے چاہے اپنے بندوں میں سے، پس پھرے وہ ساتھ غضب کے اوپر غضب کےاور کافروں کے لیے ہے عذاب رسوا کن(90)
{89 ـ 90} أي: {ولما جاءهم [كتابٌ]} من عند الله على يد أفضل الخلق وخاتم الأنبياء، المشتمل على تصديق ما معهم من التوراة، وقد علموا به، وتيقنوه على أنهم إذا كان وقع بينهم وبين المشركين في الجاهلية حروب استنصروا بهذا النبي وتوعدوهم بخروجه، وأنهم يقاتلون المشركين معه، فلما جاءهم هذا الكتاب والنبي الذي عرفوا؛ كفروا به بغياً وحسداً أن ينزل الله من فضله على من يشاء من عباده، فلعنهم الله وغضب عليهم غضباً بعد غضب؛ لكثرة كفرهم وتوالي شكهم وشركهم، ولهم في الآخرة عذاب مهين أي مؤلم موجع، وهو صلْيُ الجحيم وفوت النعيم المقيم، فبئس الحال حالهم، وبئس ما استعاضوا واستبدلوا من الإيمان بالله وكتبه ورسله، الكفر به وبكتبه وبرسله مع علمهم وتيقنهم، فيكون أعظمَ لعذابهم.
[90-89] مطلب یہ ہے کہ جب افضل المخلوقات اور خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیeکے ذریعے سے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب آ گئی جو ان تعلیمات کی تصدیق کرتی تھی جنھیں تورات نے پیش کیا، جس کا ان کو علم اور یقین تھا۔ علاوہ ازیں جاہلیت کے زمانے میں جب کبھی ان کے اور مشرکین کے درمیان جنگ ہوتی تو یہ دعا کیا کرتے تھے (اے اللہ) اس نبی کے ذریعے سے ہماری مدد فرما اور وہ مشرکین کو ڈرایا کرتے تھے کہ اس نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ وہ اس نبی کے ساتھ مل کر مشرکین کے خلاف جنگ کریں گے۔ جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور وہ نبی آ گیا جس کو انھوں نے پہچان لیا تو حسد اور سرکشی کی وجہ سے اس کو ماننے سے انکار کر دیا (اور انھیں حسد اس بات پر تھا) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل نازل فرماتا ہے۔ (اللہ نے یہ شرف نبوت ان کی بجائے، کسی اور کو کیوں دے دیا؟) پس اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت کی اور ان پر سخت غضب ناک ہوا، کیونکہ کفر میں وہ بہت بڑھ گئے تھے اور متواتر شک اور شرک میں مبتلا چلے آ رہے تھے۔ اور ان کافروں کے لیے آخرت میں ﴿ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾ ’’رسوا کرنے والا عذاب ہو گا‘‘ اور وہ یہ کہ ان کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا اور دائمی نعمتوں سے وہ محروم ہوں گے۔ پس بہت برا ہے ان کا حال، بہت ہی برا ہے وہ معاوضہ جو انھوں نے اللہ تعالی، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کے مقابلے میں حاصل کیا اور وہ یہ کہ انھوں نے اللہ کے ساتھ، اس کی کتابوں اور رسولوں کے ساتھ کفر کیا۔ حالانکہ وہ سب کچھ جانتے تھے اور انھیں رسولوں کی صداقت کا بھییقین تھا اسی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہو گا۔
آیت: 91 - 93
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (91) وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ (92) وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (93)}.
اور جب کہا جاتا ہے ان سے ایمان لاؤ اس پر جو نازل کیا اللہ نے تو کہتے ہیں ہم ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا ہم پر اور انکار کرتے ہیں وہ اس کے ماسوا کا، حالانکہ وہ (قرآن) حق ہے، تصدیق کرنے والا اس (کتاب) کی جو ان کے پاس ہے، کہہ دیجیے! ، پھر کیوں قتل کرتے رہے تم اللہ کے نبیوں کو پہلے اس سے، اگر تھے تم مومن(91)اور تحقیق آئے تمھارے پاس موسیٰ ساتھ واضح دلیلوں (معجزات) کے، پھر بنا لیا تم نے بچھڑے کو (معبود) بعد اس کے اور تم (ہی) ہو ظالم(92) اور (یاد کرو) جب لیا ہم نے پختہ وعدہ تم سے اور بلند کیا ہم نے، تم پر طور(پہاڑ اور کہا) پکڑو تم جو دیا ہم نے تمھیں ساتھ قوت کے اور سنو! کہا انھوں نے سنا ہم نے اور نافرمانی کی ہم نےاور پلا دیے گئے وہ اپنے دلوں میں (محبت) بچھڑے کی بہ سبب ان کے کفر کے، کہہ دیجیے! بری ہے وہ چیز کہ حکم کرتا ہے تمھیں اس کا تمھارا ایمان اگر ہو تم مومن(93)
{91} أي: وإذا أُمِر اليهود بالإيمان بما أنزل الله على رسوله وهو القرآن استكبروا وعتوا و {قالوا نؤمن بما أنزل علينا ويكفرون بما وراءه}؛ أي: بما سواه من الكتب، مع أن الواجب أن يؤمنوا بما أنزل الله مطلقاً سواء أنزل عليهم أو على غيرهم، وهذا هو الإيمان النافع، الإيمان بما أنزل الله على جميع رسل [الله]، وأما التفريق بين الرسل والكتب وزعم الإيمان ببعضها دون بعض فهذا ليس بإيمان بل هو الكفر بعينه، ولهذا قال تعالى: {إن الذين يكفرون بالله ورسله ويريدون أن يفرقوا بين الله ورسله ويقولون نؤمن ببعض ونكفر ببعض ويريدون أن يتخذوا بين ذلك سبيلا أولئك هم الكافرون حقًّا}؛ ولهذا رد عليهم تبارك وتعالى هنا ردًّا شافياً وألزمهم إلزاماً لا محيد لهم عنه فرد عليهم بكفرهم بالقرآن بأمرين فقال: {وهو الحق}؛ فإذا كان هو الحق في جميع ما اشتمل عليه من الإخبارات والأوامر والنواهي وهو من عند ربهم؛ فالكفر به بعد ذلك كفر بالله وكفر بالحق الذي أنزله. ثم قال: {مصدقاً لما معهم}؛ أي: موافقاً له في كلِّ ما دل عليه من الحق ومهيمناً عليه، فَلِمَ تؤمنون بما أنزل عليكم وتكفرون بنظيره، هل هذا إلا تعصب واتباع للهوى لا للهدى؟ وأيضاً فإن كون القرآن مصدقاً لما معهم يقتضي أنه حجة لهم على صدق ما في أيديهم من الكتب، فلا سبيل لهم إلى إثباتها إلا به، فإذا كفروا به وجحدوه صاروا بمنزلة من ادعى دعوى بحجة وبينة ليس له غيرها، ولا تتم دعواه إلا بسلامة بينته، ثم يأتي هو لبينته وحجته فيقدح فيها ويكذب بها، أليس هذا من الحماقة والجنون؟ فكان كفرهم بالقرآن كفراً بما في أيديهم ونقضاً له. ثم نقض عليهم تعالى دعواهم الإيمان بما أنزل إليهم بقوله: {قل}؛ لهم {فَلِمَ تقتلون أنبياء الله من قبل إن كنتم مؤمنين}.
[91] جب یہود کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کتاب پر ایمان لائیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل کی ہے، یعنی قرآن کریم پر تو انھوں نے تکبر اور سرکشی سے کہا: ﴿نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ﴾ یعنی وہ (تورات کے سوا) تمام کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ ان پر فرض تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ تمام کتابوں پر علی الاطلاق ایمان لائیں خواہ یہ کتابیں بنی اسرائیل کے نبیوں پر نازل کی گئی ہوں یا ان کے علاوہ کسی اور نبی پر۔ اور یہی وہ ایمان ہے جو فائدہ مند ہے۔ یعنی ان تمام کتابوں پر ایمان جو تمام انبیائے کرامoپر نازل کی گئی ہیں۔ رہا اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور اس کی نازل کردہ کتابوں کے درمیان تفریق کرنا اور اپنے زعم کے مطابق کسی پر ایمان لانا اور کسی کا انکار کر دینا، تو یہ ایمان نہیں بلکہ عین کفر ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَیَكْ٘فُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْ٘فُرُ بِبَعْضٍ١ۙ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّؔتَّؔخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًاۙ۰۰اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘كٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾ (النساء : 4؍150۔151) ’’وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسولوں سے کفر کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ اس کے مابین (یعنی ایمان اور کفر کے مابین) ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں بلاشبہ وہی کافر ہیں۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کو شافی جواب دیا ہے اور ان کو ایک ایسی الزامی دلیل دی ہے جس سے ان کو کوئی مفر نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار قرآن کا دو پہلوؤں سے رد کیا ہے۔ (الف) اس لیے فرمایا: ﴿ وَهُوَ الْحَقُّ ﴾ ’’وہ (قرآن) حق ہے‘‘ پس جب یہ قرآن اوامر و نواہی اور اخبار میں سراسر حق پر مشتمل ہے اور یہ حق ان کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ لہٰذا یہ معلوم ہو جانے کے بعد اس کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا انکار کرنا اور اس حق کا انکار کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا۔ (ب) پھر فرمایا ﴿ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ﴾ ’’ان کی موجودہ کتاب کی تصدیق کرتا ہے‘‘ یعنییہ ہر اس چیز کے موافق اور اس کا محافظ ہے جس پر حق دلالت کرتا ہے۔ پس تم اس کتاب پر کیوں ایمان لاتے ہو جو تم پر نازل کی گئی جبکہ اس جیسی دوسری کتاب کا انکار کرتے ہو؟ اور کیایہ تعصب نہیں؟ کیایہ ہدایت کی پیروی کی بجائے خواہشات نفس کی پیروی نہیں؟ نیز قرآن کا ان کتابوں کی تصدیق کرنا جو ان پر نازل کی گئیں ہیں، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہ قرآن ان کے لیے اس بات کی دلیل ہو کہ ان کے پاس جو کتابیں ہیں،وہ سچی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ اپنی کتابوں کا اثبات بھی قرآن کے بغیر نہیں کر سکتے۔ جب وہ قرآن کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی حالت اس مدعی کی سی ہو جاتی ہے جس کے پاس اپنے دعوی کو ثابت کرنے کے لیے ایسی دلیل و حجت بھی ہے جو اثبات دعویٰ کی واحد دلیل ہے، اس دلیل کے بغیر اس کا دعویٰ ثابت ہی نہیں ہو سکتا، لیکن پھر وہ خود ہی اپنی دلیل میں جرح و قدح کرتا ہے اور اس کو جھٹلا دیتا ہے۔ کیایہ پاگل پن اور حماقت نہیں؟ پس واضح ہوا کہ ان کا قرآن کا انکار کرنا درحقیقت ان کتابوں کا انکار ہے جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوے کی تردید کی کہ وہ ان کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ قُ٘لْ﴾ یعنی ان سے (کہہ دو) ﴿ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْۢبِیَآءَ اللّٰهِ مِنْ قَبْلُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’اگر تم ایماندار ہو تو پھر تم اس سے قبل اللہ کے انبیاء کو کیوں قتل کر دیتے رہے؟‘‘
{92} {ولقد جاءكم موسى بالبينات}؛ أي: بالأدلة الواضحات المبينة للحق {ثم اتخذتم العجل من بعده}؛ أي: بعد مجيئه {وأنتم ظالمون}؛ في ذلك ليس لكم عذر.
[92] ﴿وَلَقَدْ جَآءَكُمْ مُّوْسٰؔى بِالْبَیِّنٰتِ ﴾ یعنی تمھارے پاس موسیٰ حق کو بیان کرنے والے واضح دلائل لے کر آئے۔ ﴿ ثُمَّؔ اتَّؔخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ﴾ یعنی ’’تم نے موسیٰ کے آنے کے بعد بھی بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا ‘‘ ﴿ وَاَنْتُمْ ظٰ٘لِمُوْنَ﴾ ’’اور تم اس بارے میں سخت ظالم تھے‘‘ اور تمھارے پاس کوئی عذر نہیں۔
{93} {وإذ أخذنا ميثاقكم ورفعنا فوقكم الطورخذوا ما آتيناكم بقوة واسمعوا}؛ أي: سماع قبول وطاعة واستجابة، {قالوا سمعنا وعصينا}؛ أي: صارت هذه حالتهم {وأشربوا في قلوبهم العجل}؛ أي: صُبِغ حب العجل وحب عبادته في قلوبهم وشربها بسبب كفرهم {قل بئسما يأمركم به إيمانكم إن كنتم مؤمنين}؛ أي: أنتم تدعون الإيمان وتتمدحون بالدين الحق وأنتم قتلتم أنبياء الله واتخذتم العجل إلهاً من دون الله لمَّا غاب عنكم موسى نبي الله، ولم تقبلوا أوامره ونواهيه إلا بعد التهديد وَرَفْعِ الطور فوقكم، فالتزمتم بالقول ونقضتم بالفعل، فما هذا الإيمان الذي ادعيتم؟ وما هذا الدين؟ فإن كان هذا إيماناً على زعمكم، فبئس الإيمان الداعي صاحبه إلى الطغيان والكفر برسل الله وكثرة العصيان، وقد عُهِد أن الإيمان الصحيح يأمر صاحبه بكل خير وينهاه عن كل شرٍّ، فوضح بهذا كذبهم وتبين تناقضهم.
[93] ﴿ وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰؔكُمْ بِقُوَّةٍ وَّاسْمَعُوْا﴾ ’’اور جب ہم نے تم سے وعدہ لیا اور تم پر طور کو بلند کیا (کھڑا کیا) کہ ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوطی سے تھامو اور سنو‘‘ یعنی اس کو قبول کرنے، اس کی اطاعت کرنے اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے سنو ﴿ قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا﴾ یعنی ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔‘‘ ﴿ وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُ٘لُ٘وْبِهِمُ الْعِجْلَ ﴾ یعنی ان کے دل بچھڑے اور اس کی عبادت کی محبت کے رنگ میں رنگ گئے اور ان کے کفر کے سبب سے ان کے دلوں میں گویا بچھڑے کی محبت رچ بس گئی۔ ﴿ قُلْ بِئْسَمَا یَاْ٘مُرُؔكُمْ بِهٖۤ اِیْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ﴾ ’’انھیں کہہ دیجیے کہ تمھارا ایمان تمھیں برا حکم دے رہا ہے اگر تم مومن ہو‘‘ یعنی تم ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو اور دین حق کے نام نہاد پیرو ہونے پر اپنی تعریف چاہتے ہو۔ اور تمھاری حالت یہ ہے کہ تم نے اللہ کے نبیوں کوقتل کیا، جب حضرت موسیٰuکوہ طور پر گئے، تو تم نے اللہ کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ تم نے اللہ تعالیٰ کی شریعت (یعنی اوامر و نواہی) کو اس وقت تک قبول نہ کیا جب تک کہ تمھیں دھمکی نہ دی گئی اور کوہ طور کو اٹھا کر تم پر معلق نہ کر دیا گیا۔ پھر بھی تم نے زبانی طور پر تو اسے قبول کر لیا مگر بالفعل اس کی مخالفت کی۔ یہ کیسا ایمان ہے جس کا تم دعویٰ کرتے ہو اور یہ کیسا دینہے؟ تمھارے زعم کے مطابق اگر یہی ایمان ہے تو بہت برا ایمان ہے جو تمھیں سرکشی، رسولوں کے انکار اور کثرت عصیان کی دعوت دیتا ہے۔ حالانکہ یہ بات معروف ہے کہ صحیح اور حقیقی ایمان صاحب ایمان کو ہر بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے لہٰذا اس سے ان کا جھوٹ واضح اور ان کا تضاد عیاں ہو جاتا ہے۔
آیت: 94 - 96
{قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (94) وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ (95) وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (96)}.
کہہ دیجیے! اگر ہے تمھارے ہی لیے گھر آخرت کا اللہ کے ہاں، خاص طور پر، سوائے اور لوگوں کے، تو تمنا کرو تم موت کی، اگر ہو تم سچے(94) اور ہر گز نہیں تمنا کریں گے وہ اس (موت) کی کبھی بھی، بہ سبب اس کے جو آگے بھیجا ان کے ہاتھوں نےاور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو(95) اور البتہ آپ ضرور پائیں گے ان (یہودیوں) کو زیادہ حریص سب لوگوں سے زندگی پر اور ان سے بھی جنھوں نے شرک کیا، چاہتا ہے (ہر) ایک ان کا، کاش کہ عمر دیا جائے وہ ہزار سال، حالانکہ نہیں ہے وہ (کوئی ایک) بچانے والا اس کو عذاب سے، یہ کہ (اس قدر لمبی) عمر دیا جائے وہ، اور اللہ دیکھنے والا ہے اس کو جو وہ عمل کرتے ہیں(96)
{94} أي: {قل}؛ لهم على وجه تصحيح دعواهم، {إن كانت لكم الدار الآخرة}؛ يعني الجنة، {خالصة من دون الناس}؛ كما زعمتم أنه لن يدخل الجنة إلا من كان هوداً أو نصارى، وأن النار لن تمسهم إلا أياماً معدودة فإن كنتم صادقين بهذه الدعوى، {فتمنوا الموت}؛ وهذا نوع مباهلة بينهم وبين رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وليس بعد هذا الإلجاء والمضايقة لهم بعد العناد منهم إلا أحد أمرين: إما أن يؤمنوا بالله ورسوله، وإما أن يباهلوا على ما هم عليه بأمر يسير عليهم وهو تمني الموت الذي يوصلهم إلى الدار التي هي خالصة لهم، فامتنعوا عن ذلك؛ فعلم كل أحد أنهم في غاية المعاندة والمحادّة لله ورسوله مع علمهم بذلك، ولهذا قال تعالى:
[94] ﴿ قُ٘لْ ﴾ یعنی ان کے دعویٰ کی تصحیح کی خاطر کہہ دیجیے ﴿ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ﴾ ’’کہ اگر آخرت کا گھر (جنت) صرف تمھارے ہی لیے ہے‘‘ ﴿خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ ﴾ دوسرے لوگ اس میں نہیں جائیں گے۔ جیسا کہ تمھارا گمان ہے کہ جنت میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو یہودی اور نصرانی ہیں، نیز تمھیں ہرگز آگ نہیں چھوئے گی سوائے چند روز کے، اس لیے اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو ﴿ فَتَمَنَّوُا الْ٘مَوْتَ﴾ ’’تو موت کی تمنا کر دیکھو۔‘‘ یہ ان کے اور رسول اللہeکے درمیان مباہلہ کی ایک قسم ہے۔ ان کے دلائل کا توڑ، انھیں لاجواب کر دینے اور ان کے عناد کے بعد ان کے لیے دو باتوں میں سے کسی ایک کو مانے بغیر چارہ نہیں۔ (۱) یا تو وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں۔ (۲) یا وہ اپنے موقف کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی بات پر مباہلہ کر لیں اور وہ ہے موت کیتمنا ، جو انھیں اس جنت میں پہنچا دے گی جو خالص انھی کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ مگر انھوں نے اس مباہلے کو قبول نہ کیا۔ پس ان سب کو معلوم ہو گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور عناد میں انتہا کو پہنچ گئے ہیں اور وہ یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کر رہے ہیں۔
{95} {ولن يتمنوه أبداً بما قدمت أيديهم}؛ من الكفر والمعاصي؛ لأنهم يعلمون أنه طريق لهم إلى المجازاة بأعمالهم الخبيثة، فالموت أكره شيء إليهم، وهم أحرص على الحياة من كل أحد من الناس حتى من المشركين الذين لا يؤمنون بأحد من الرسل والكتب. ثم ذكر شدة محبتهم الدنيا فقال:
[95] اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَ٘نْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ﴾ یعنی کفر اور معاصی کے اعمال کے باعث وہ موت کی تمنا نہیں کریں گے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ ان کے گندے اعمال کی جزا کا راستہ ہے۔ پس موت ان کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے اور وہ دنیا کے تمام لوگوں سے بڑھ کر زندگی کے حریص ہیں حتیٰ کہ ان مشرکین سے بھی زیادہ جو رسولوں، کتابوں اور کسی چیز پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔
{96} {يود أحدهم لو يعمر ألف سنة}؛ وهذا: أبلغ ما يكون من الحرص تمنوا حالة هي من المحالات، والحال أنهم لو عُمِّروا العمر المذكور لم يغن عنهم شيئاً، ولا دفع عنهم من العذاب شيئاً، {والله بصير بما يعملون}؛ تهديد لهم على المجازاة بأعمالهم.
[96] پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ساتھ ان کی شدید محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ یَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ﴾ ’’ان میں سے تو ہر شخص ایک ایک ہزار سال کی عمر چاہتا ہے‘‘ زندگی کی حرص کے لیےیہ بلیغ ترین پیرایہ ہے، انھوں نے ایک ایسی حالت کیآرزو کی ہے جو قطعاً محال ہے اور حال یہ ہے کہ اگر ان کو یہ مذکورہ عمر عطا کر بھی دی جائے تب بھییہ عمر ان کے کسی کام نہیں آ سکتی اور نہ ان سے عذاب کو دور کر سکتی ہے ﴿ وَاللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو بخوبی دیکھ رہا ہے‘‘یہ ان کے لیے تہدید ہے کہ ان کو ان کے اعمال کا بدلہ ملے گا۔
آیت: 97 - 98
{قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ (97) مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ (98)}.
کہہ دیجیے! جو کوئی ہے دشمن جبریل کا، تو اسی نے نازل کیا اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے، تصدیق کرنے والا اس (کتاب) کی جو اس سے پہلے ہے اور ہدایت اور بشارت ہے مومنوں کے لیے(97) جو کوئی ہے دشمن اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کے رسولوں کا اور جبریل و میکائیل کا، تو بلاشبہ اللہ دشمن ہے کافروں کا(98)
{97 ـ 98} أي: قل لهؤلاء اليهود الذين زعموا أن الذي منعهم من الإيمان أن وليك جبريل عليه السلام ولو كان غيره من ملائكة الله لآمنوا بك وصدقوا: إن هذا الزعم منكم تناقض وتهافت وتكبر على الله، فإن جبريل عليه السلام هو الذي نزل بالقرآن من عند الله على قلبك، وهو الذي ينزل على الأنبياء قبلك، والله هو الذي أمره وأرسله بذلك، فهو رسول محض، مع أن هذا الكتاب الذي نزل به جبريل مصدقاً لما تقدمه من الكتب غير مخالف لها ولا مناقض، وفيه الهداية التامة من أنواع الضلالات، والبشارة بالخير الدنيوي والأخروي لمن آمن به، فالعداوة لجبريل الموصوف بذلك كفر بالله وآياته وعداوة لله ولرسله وملائكته، فإن عداوتهم لجبريل لا لذاته، بل لما ينزل به من عند الله من الحق على رسل الله، فيتضمن الكفر والعداوة للذي أنزله وأرسله والذي أرسل به والذي أرسل إليه، فهذا وجه ذلك.
[98-97] یعنی ان یہود سے کہہ دیجیے جن کا گمان ہے کہ ان کو آپ پر ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا ہے کہ حضرت جبرئیلuآپ کے دوست اور مددگار ہیں، اگر جبریلuکے علاوہ کوئی اور فرشتہ ہوتا تو وہ آپ پر ایمان لے آتے اور آپ کی تصدیق کرتے۔ تمھارا یہ گمان درحقیقت تمھارا تناقض، تمھاری ضد اور اللہ تعالیٰ کے سامنے تمھارا تکبر ہے۔ کیونکہ جبریل ہی وہ فرشتہ ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے قلب پر قرآن اتارا اور جبریل ہی آپ سے پہلے دیگر انبیاء کرام پر نازل ہوتا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے جبریل کو حکم دیا اور اسے وحی کے ساتھ بھیجا۔ وہ تو محض ایک پیامبر ہے۔ بایں ہمہ جبریلuاس کتاب کو لے کر نازل ہوئے جو کتب سابقہ کی تصدیق کرتی ہے۔ یہ کتاب کتب سابقہ کی مخالف ہے نہ ان کی مناقض۔ اس میں مختلف قسم کی گمراہیوں سے مکمل ہدایت کا روشن راستہ ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کے لیے دنیاوی اور اخروی بھلائی کی بشارت ہے۔ پس ان صفات سے موصوف جبریلuسے عداوت رکھنا درحقیقت اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کا انکار کرنا اور اللہ تعالی، اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں کے ساتھ عداوت کا اظہار ہے کیونکہ جبریلuکے ساتھ ان کی عداوت جبریل کی ذات کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے ساتھ ان کی عداوت محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق لے کر نازل ہوتا رہا ہے۔ پس ان کا کفر اور عداوت درحقیقت اس ہستی کے ساتھ ہے جس نے اسے بھیجا اور نازل کیا اور اس وحی کے ساتھ ہے جو اس کے ساتھ اتاری گئی ہے اور اس رسول کے ساتھ ہے جس کی طرف یہ وحی بھیجی گئی ہے۔ ان کی عداوت کی بس یہی وجہ ہے۔
آیت: 99
{وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ (99)}.
اور تحقیق نازل کیں ہم نے آپ کی طرف آیتیں واضح اور نہیں کفر کرتے ان کے ساتھ مگر نافرمانی کرنے والے ہی(99)
{99} يقول لنبيه - صلى الله عليه وسلم -: {ولقد أنزلنا إليك آيات بينات}؛ تحصل بها الهداية لمن استهدى وإقامة الحجة على من عاند، وهي في الوضوح والدلالة على الحق قد بلغت مبلغاً عظيماً، ووصلت إلى حالة لا يمتنع من قبولها إلا من فسق عن أمر الله وخرج عن طاعة الله، واستكبر غاية التكبر.
[99] اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمدeسے مخاطب ہو کر فرماتا ہے: ﴿ وَلَقَدْ اَ٘نْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰؔتٍ﴾ ’’اور ہم نے آپ کی طرف روشن آیات نازل کیں‘‘ ان سے اس کو ہدایت حاصل ہوتی ہے جو ہدایت کا طلب گار ہو۔ اور اس پر حجت قائم ہوتی ہے جو عناد کا مظاہرہ کرے۔ یہ آیات حق پر اپنی دلالت اور وضاحت کے اعتبار سے ایک ایسے بلند مقام اور ایسی حالت پر پہنچی ہوئی ہیں کہ کوئی ان کو قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتا سوائے اس شخص کے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل گیا اور اس نے انتہائی درجے کے تکبر سے کام لیا۔
آیت: 100
{أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (100)}.
کیا (انھوں نے کفر کیا) اور جب بھی عہد کیا انھوں نے کوئی عہد تو پھینک دیا اس کو ایک فریق نے ان میں سےبلکہ اکثر ان میں سے نہیں ایمان لاتے(100)
{100} وهذا فيه التعجب من كثرة معاهداتهم وعدم صبرهم على الوفاء بها فكلما تفيد التكرار، فكلما وجد العهد ترتب عليه النقض، ما السبب في ذلك؟ السبب أن أكثرهم لا يؤمنون، فعدم إيمانهم هو الذي أوجب لهم نقض العهود، ولو صدق إيمانهم لكانوا مثل من قال الله فيهم: {من المؤمنين رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه}.
[100] یہ ان کے کثرت معاہدات اور پھر ان معاہدات کے ایفاء پر ان کے عدم صبر پر اظہار تعجب ہے۔ فرمایا: ﴿ كُلَّمَا﴾ ’’جب بھی‘‘ (كُلَّمَا) تکرار کا فائدہ دیتا ہے۔ یعنی جب کبھی وہ عہد کرتے ہیں تو وفا نہیں کرتے۔ اس کا کیا سبب ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں رکھتے۔ ان کا ایمان نہ لانا ہی وہ سبب ہے جو ان کے نقض عہد کا موجب ہے۔ اگر ان کے ایمان میں کوئی صداقت ہوتی تو ان کی مثال ان لوگوں کی سی ہوتی جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَیْهِ﴾ (الاحزاب: 33؍23) ’’اور اہل ایمان میں سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں کہ جو عہد انھوں نے اللہ سے کیا تھا اسے سچ کر دکھایا۔‘‘
آیت: 101 - 103
{وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (101) وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (102) [وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (103)]}.
اور جب آیا ان کے پاس کوئی رسول اللہ کے پاس سے، تصدیق کرنے والا اس (کتاب) کی جو ان کے پاس ہے، تو پھینک دیا ایک فریق نے ان لوگوں میں سے جو دیے گئے تھے کتاب، اللہ کی کتاب کو، پیچھے اپنی پیٹھوں کے، گویا وہ نہیں جانتے(101) اور اتباع کیا انھوں نے اس کا جو پڑھتے تھے شیطان، سلیمان کی بادشاہی میں، اور نہیں کفر کیا سلیمان نے لیکن شیطانوں نے کفر کیا، وہ سکھلاتے تھے لوگوں کو جادو اور (پیروی کی) اس کی جو نازل کیا گیا اوپر دو فرشتوں کے، بابل میں، ھاروت اور ماروت (پر) اور نہیں سکھلاتے تھے وہ (فرشتے) کسی کو یہاں تک کہ کہتے وہ (پہلے) ہم تو صرف آزمائش ہیں، سو نہ کفر کر تو، پس سیکھتے تھے لوگ ان سے وہ (جادو) کہ جدائی ڈالتے تھے وہ اس کے ذریعے سے درمیان مرد اور اس کی بیوی کے، اور نہیں تھے وہ نقصان پہنچانے والے ساتھ اس (جادو) کے کسی کو بھی، مگر ساتھ حکم اللہ کے۔ اور سیکھتے تھے لوگ وہ (علم) جو نقصان پہنچاتا تھا ان کو اور نہیں نفع دیتا تھا انھیں۔ اور تحقیق جان لیا انھوں نے، البتہ جس نے خریدا اس (جادو) کو نہیں ہے اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ اور البتہ بُری ہے وہ چیز کہ بیچا انھوں نے بدلے اس کے اپنی جانوں کو، کاش کہ ہوتے وہ جانتے(102) اور اگر بے شک وہ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ، البتہ ثواب (ملتا) اللہ کے ہاں سے بہت بہتر، کاش کہ ہوتے وہ جانتے(103)
{101} أي: ولما جاءهم هذا الرسول الكريم بالكتاب العظيم بالحق الموافق لما معهم وكانوا يزعمون أنهم متمسكون بكتابهم، فلما كفروا بهذا الرسول وبما جاء به {نبذ فريق من الذين أوتوا الكتاب كتاب الله}؛ الذي أنزل إليهم أي طرحوه رغبة عنه {وراء ظهورهم}؛ وهذا أبلغ في الإعراض كأنهم في فعلهم هذا من الجاهلين وهم يعلمون صدقه وحقيقة ما جاء به، تبين بهذا أن هذا الفريق من أهل الكتاب لم يبق في أيديهم شيء حيث لم يؤمنوا بهذا الرسول، فصار كفرهم به كفراً بكتابهم من حيث لا يشعرون. ولما كان من العوائد القدرية والحكمة الإلهية أن من ترك ما ينفعه وأمكنه الانتفاع به ولم ينتفع؛ ابتلي بالاشتغال بما يضره، فمن ترك عبادة الرحمن؛ ابتليَ بعبادة الأوثان، ومن ترك محبة الله وخوفه ورجاءه؛ ابتليَ بمحبة غير الله وخوفه ورجائه، ومن لم ينفق ماله في طاعة الله أنفقه في طاعة الشيطان، ومن ترك الذلَّ لربه؛ ابتليَ بالذل للعبيد، ومن ترك الحق؛ ابتليَ بالباطل.
[101] یعنی جب ان کے پاس رسول کریم(e)اس حق کے ساتھ یہ عظیم کتاب لے کر آئے جو ان کے پاس موجود کتاب کے موافق تھی اور وہ یہ دعویٰ بھی کرتے تھے کہ وہ اپنی کتاب پر عمل کرتے ہیں۔ تو انھوں نے اس رسول اور اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا جس کو یہ رسول لے کر آئے۔ ﴿ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ١ۙۗ كِتٰبَ اللّٰهِ ﴾ ’’اہل کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو پھینک دیا‘‘یعنی وہ کتاب جو ان کی طرف نازل کی گئی تھی اس کو بے رغبتی کے ساتھ دور پھینک دیا ﴿ وَرَآءَ ظُ٘هُوْرِهِمْ ﴾ ’’اپنی پیٹھوں کے پیچھے‘‘ روگردانی اور اعراض کے لیےیہ بلیغ ترین محاورہ ہے گویا وہ اپنے اس فعل کے ارتکاب میں سخت جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس رسول کی صداقت اور جو کچھ وہ لایا ہے اس کی حقیقت کو خوب جانتے ہیں۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اہل کتاب کے اس گروہ کے ہاتھ میں کچھ بھی باقی نہیں جبکہ یہ اس رسول پر ایمان نہیں لائے۔ ان کا اس رسول کو نہ ماننا اپنی کتاب کا انکار کرنا ہے مگر وہ اس بات کو سمجھتے نہیں۔ حکمت الٰہی اور عادت قدسییہ ہے کہ جو کوئی اس چیز کو ترک کرتا ہے جو اسے فائدہ دیتی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے ممکن ہو لیکن وہ فائدہ نہ اٹھائے تو اسے ایسے کام میں مشغول کر دیا جاتا ہے جو اس کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے منہ موڑتا ہے، اسے بتوں کی عبادت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی محبت، اس سے خوف اور اس پرامید کو ترک کرتا ہے وہ غیر اللہ کی محبت، اس سے خوف اور اس سے امید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مال خرچ نہیں کرتا، اسے شیطان کی فرماں برداری میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جو کوئی اپنے رب کے سامنے ذلت اور فروتنی کا اظہار نہیں کرتا اسے بندوں کے سامنے ذلیل ہونا پڑتا ہے اور جو کوئی حق کو چھوڑ دیتا ہے اسے باطل میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔
{102 ـ 103} كذلك: هؤلاء اليهود لما نبذوا كتاب الله اتبعوا ما تتلوا الشياطين، وتختلق من السحر على ملك سليمان حيث أخرجت الشياطين للناس السحر، وزعموا أن سليمان عليه السلام كان يستعمله وبه حصل له الملك العظيم، وهم كذبة في ذلك فلم يستعمله سليمان بل نزهه الصادق في قيله: {وما كفر سليمان}؛ أي: بتعلم السحر فلم يتعلمه، {ولكن الشياطين كفروا}؛ في ذلك {يعلمون الناس السحر}؛ من إضلالهم وحرصهم على إغواء بني آدم وكذلك اتبع اليهود السحر الذي أُنْزِلَ على الملكين الكائنين بأرض بابل من أرض العراق، أنزل عليهما السحر امتحاناً وابتلاءً من الله لعباده فيعلمانهم السحر، {وما يعلمان من أحد حتى}؛ ينصحاه و {يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر}؛ أي: لا تتعلم السحر؛ فإنه كفر، فينهيانه عن السحر ويخبرانه عن مرتبته، فتعليم الشياطين للسحر على وجه التدليس والإضلال، ونسبته وترويجه إلى من برأه الله منه وهو سليمان عليه السلام، وتعليم الملكين امتحاناً مع نصحمها لئلا يكون لهم حجة، فهؤلاء اليهود يتبعون السحر الذي تعلمه الشياطين والسحر الذي يعلمه الملكان، فتركوا علم الأنبياء والمرسلين وأقبلوا على علم الشياطين، وكلٌّ يصبو إلى ما يناسبه. ثم ذكر مفاسد السحر فقال: {فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء وزوجه}؛ مع أن محبة الزوجين لا تقاس بمحبة غيرهما، لأن الله قال في حقهما: {وجعل بينكم مودة ورحمة}؛ وفي هذا دليل على أن السحر له حقيقة، وأنه يضر بإذن الله؛ أي: بإرادة الله، والإذن نوعان: إذن قدري: وهو المتعلق بمشيئة الله كما في هذه الآية، وإذن شرعي كما في قوله تعالى في الآية السابقة: {فإنه نزله على قلبك بإذن الله}؛ وفي هذه الآية وما أشبهها أن الأسباب مهما بلغت في قوة التأثير فإنها تابعة للقضاء والقدر ليست مستقلة في التأثير، ولم يخالف في هذا الأصل أحد من فرق الأمة غير القدرية في أفعال العباد زعموا: أنها مستقلة غير تابعة للمشيئة، فأخرجوها عن قدرة الله، فخالفوا كتاب الله وسنة رسوله وإجماع الصحابة والتابعين. ثم ذكر أن علم السحر مضرة محضة، ليس فيه منفعة لا دينية ولا دنيوية، كما يوجد بعض المنافع الدنيوية في بعض المعاصي كما قال تعالى في الخمر والميسر: {قل فيهما إثم كبير ومنافع للناس وإثمهما أكبر من نفعهما}؛ فهذا السحر مضرة محضة فليس له داعٍ أصلاً، فالمنهيات كلها إما مضرة محضة أو شرها أكبر من خيرها، كما أن المأمورات إما مصلحة محضة أو خيرها أكثر من شرها. {ولقد علموا}؛ أي: اليهود، {لمن اشتراه}؛ أي: رغب في السحر رغبة المشتري في السلعة، {ما له في الآخرة من خلاق}؛ أي: نصيب بل هو موجب للعقوبة، فلم يكن فعلهم إياه جهلاً ولكنهم استحبوا الحياة الدنيا على الآخرة فلبئس {ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون}؛ علماً يثمر العمل ما فعلوه.
[103-102] اسی طرح ان یہودیوں نے جب اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا تو اس جادو کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین نے حضرت سلیمانuکی حکومت کے زمانے میں ایجاد کیا۔ جہاں شیاطین نے لوگوں کو سکھانے کے لیے جادو گھڑا اور لوگ سمجھے کہ حضرت سلیمانuجادو کا استعمال کرتے ہیں اور جادو ہی کے زور پر انھیں اتنی بڑی سلطنت حاصل ہوئی ہے۔ اس بارے میں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ حضرت سلیمانuنے کبھی جادو نہیں کیا۔ بلکہ اللہ سچے نے اپنے اس فرمان میں حضرت سلیمان کو اس کام سے منزہ قرار دیا۔ فرمایا: ﴿ وَمَا كَفَرَ سُلَ٘یْمٰنُ﴾ یعنی (حضرت سلیمان) نے (جادو سیکھ کر) کفر کا ارتکاب نہیں کیا، انھوں نے ہرگز جادو نہیں سیکھا ﴿ وَلٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا﴾ یعنی (جادو سیکھ کر )شیاطین نے کفر کا ارتکاب کیا۔ ﴿ یُ٘عَلِّ٘مُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾ یعنی بنی آدم کو گمراہ کرنے اور ان کو اغوا کرنے کی حرص کی وجہ سے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ اسی طرح یہودیوں نے اس جادو کی بھی پیروی کی جو سرزمین عراق کے شہر بابل میں دو فرشتوں پر نازل کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے ان فرشتوں پر جادو نازل کیا گیا تھا اور یہ فرشتے آزمائش ہی کے لیے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ ﴿ وَمَا یُعَلِّ٘مٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى﴾ ’’اور وہ کسی کو نہیں سکھاتے تھے یہاں تک کہ‘‘ وہ ان کی خیر خواہی کرتے اور ﴿ یَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْ٘فُ٘رْ﴾ ’’کہتے کہ ہم تو آزمائش کے لیے ہیں، سو تم کفر مت کرو‘‘ یعنی جادو نہ سیکھو کیونکہ جادو کفر ہے۔ پس دونوں فرشتے لوگوں کو جادو سیکھنے سے روکتے تھے اور انھیں جادو کی حیثیت سے آگاہ کر دیتے تھے۔ پس شیاطین کا جادو سکھانا تو محض تدلیس اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خاطر تھا، نیز اس جادو کو ترویج دینے اور اسے اس معصوم ہستییعنی حضرت سلیمانuکی طرف منسوب کرنے کے لیے تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس سے بری قرار دیا ہے اور فرشتوں کا جادو سکھانا لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے تھا۔ وہ خیر خواہی سے لوگوں کو آگاہ کر دیتے تھے تاکہ ان کے لیے حجت نہ بنے۔ پس یہیہودی اس جادو کے پیچھے لگے، جسے شیاطین نے سیکھا تھا اور جو وہ دو فرشتے سکھایا کرتے تھے۔ تو انھوں نے انبیاء و مرسلین کے علوم کو چھوڑ دیا اور شیاطین کے علم کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ہر شخص اسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے جو اس کے مناسب حال ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے مفاسد بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُ٘وْنَ بِهٖ بَیْنَ الْ٘مَرْءِ وَزَوْجِهٖ﴾ ’’پھر لوگ ان سے وہ سیکھتے جس سے خاوند اور بیوی میں جدائی ڈال دیں‘‘ اس کے باوجود کہ میاں بیوی کے درمیان محبت کو کسی اور کی محبت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے بارے میں فرماتا ہے: ﴿وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ (الروم : 30؍21) ’’اور تمھارے درمیان مودت اور رحمدلی پیدا کر دی۔‘‘ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جادو کی کوئی حقیقت ہے نیزیہ کہ جادو اللہ تعالیٰ کے ’’اذن‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے ارادے سے نقصان دیتا ہے۔ اذن کی دو اقسام ہیں۔ (الف) اذن قدری ۔ جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ (ب) اذن شرعی ۔ جیسا کہ سابقہ آیت کریمہ ﴿فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللّٰهِ﴾ (البقرہ : 2؍97) میں مذکور ہے ’’اس نے تو یہ کتاب اللہ کے حکم سے آپ کے دل پر اتاری۔‘‘ اس آیت اور اس جیسی دیگر آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسباب کی قوت تاثیر خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، وہ ہر حال میں قضا و قدر کے تابع ہوتے ہیں، ان کی مستقل تاثیر نہیں ہوتی۔ افعال العباد کے بارے میں امت کے فرقوں میں کوئی بھی اس اصول کی مخالفت نہیں کرتا سوائے قدریہ کے۔ قدریہ سمجھتے ہیں کہ اسباب کی تاثیر مستقل ہوتی ہے اور وہ مشیت الٰہی کے تابع نہیں ہوتے۔ چنانچہ انھوں نے بندوں کے افعال کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے خارج کر دیا اور اس طرح وہ کتاب اللہ ، سنت رسول اور صحابہ و تابعین کے اجماع کی مخالفت کے مرتکب ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جادو کے علم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جادو میں نقصان ہی نقصان ہے، اس میں کوئی دینییا دنیاوی منفعت نہیں ہوتی جس طرح بعض گناہوں میں دنیاوی منفعت ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا: ﴿قُ٘لْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ١ٞ وَاِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا﴾ (البقرہ : 2؍219) ’’کہہ دو شراب اور جوئے میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ اس کا گناہ ان کے فائدے کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔‘‘ پس یہ جادو تو ضرر محض ہے اور اصل میں اس کا کوئی داعیہ نہیں۔ تمام منہیاتیا تو ضرر محض کی حامل ہیںیا ان میں شر کا پہلو خیر کے پہلو سے زیادہ ہے۔ جیسے تمام مامورات صرف مصلحت پر مبنی ہیںیا ان میں خیر کا پہلو شر کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ﴿ وَلَقَدْ عَلِمُوْا﴾ یعنییہود نے جان لیا ہے ﴿ لَ٘مَنِ اشْتَرٰىهُ﴾ ’’جس نے اسے خریدا‘‘یعنی انھوں نے جادو کے علم میں اس طرح رغبت کی جیسے تاجر مال تجارت کے خریدنے میں رغبت رکھتا ہے ﴿ مَا لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ﴾ یعنی ’’آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں‘‘ بلکہ یہ جادو آخرت میں عذاب کا موجب ہو گا۔ پس ان کا جادو پر عمل کرنا جہالت اور لاعلمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کیا ہے ﴿وَلَ٘بِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَؔ﴾ ’’وہ بدترین چیز ہے جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو فروخت کر رہے ہیں، کاش کہ یہ جانتے ہوتے‘‘ یعنی اپنے فعل کے بارے میں ایسا علم رکھنا جو عمل کا باعث ہو۔
آیت: 104 - 105
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ (104) مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (105)}
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ کہو تم ’’رَاعِنَا‘‘ اور کہو تم ’’اُنْظُرْنا‘‘ اور (غور سے) سنو تم، اور کافروں کے لیے ہے عذاب بہت دردناک(104) نہیں چاہتے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اہل کتاب میں سے اور نہ مشرکین،یہ کہ نازل کی جائے تم پر (اے مسلمانو!) کوئی خیر تمھارے رب کی طرف سے اور اللہ خاص کرتا ہے ساتھ اپنی رحمت کے جس کو چاہتاہے اور اللہ مالک ہے فضل عظیم کا(105)
{104} كان المسلمون يقولون حين خطابهم للرسول عند تعلمهم أمر الدين: {راعنا}؛ أي: راع أحوالنا فيقصدون بها معنى صحيحاً، وكان اليهود يريدون بها معنى فاسداً، فانتهزوا الفرصة فصاروا يخاطبون الرسول بذلك ويقصدون المعنى الفاسد، فنهى الله المؤمنين عن هذه الكلمة سَدًّا لهذا الباب، ففيه النهي عن الجائز إذا كان وسيلة إلى محرم، وفيه الأدب واستعمال الألفاظ التي لا تحتمل إلا الحسن وعدم الفحش وترك الألفاظ القبيحة أو التي فيها نوع تشويش واحتمال لأمر غير لائق، فأمرهم بلفظة لا تحتمل إلا الحسن فقال: {وقولوا انظرنا}؛ فإنها كافية يحصل بها المقصود من غير محذور، {واسمعوا}؛ لم يذكر المسموع ليعم ما أمر باستماعه فيدخل فيه سماع القرآن وسماع السنة التي هي الحكمة لفظاً ومعنى واستجابة ففيه الأدب والطاعة، ثم توعد الكافرين بالعذاب المؤلم الموجع.
[104] مسلمان جب دینی امور سیکھنے کے لیے رسول اللہeسے مخاطب ہوتے تو عرض کرتے ﴿ رَاعِنَا﴾ یعنی ہمارے حال کی رعایت کیجیے، ان کے نزدیک اس لفظ کا صحیح معنی مقصود تھا۔ مگر یہودی اس سے فاسد معنی مراد لیتے تھے۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کے اس لفظ کے استعمال کو غنیمت جانتے ہوئے فاسد معنی کے ارادے سے اس لفظ سے رسول اللہeکو خطاب کرتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی اس لفظ کے ذریعے سے نبی اکرمeکو خطاب کرنے سے روک دیا، تاکہ (گستاخی کا) یہ دروازہ بند ہو جائے۔ اس آیت کریمہ میں کسی جائز کام سے روکنے کی دلیل ہے جبکہ یہ جائز کام کسی حرام کام کے لیے وسیلہ ہو، نیز اس میں ادب کا اور ایسے الفاظ کے استعمال کا بیان ہے جو اچھے ہوں، جن میں بے ہودگی نہ ہو۔ نیز قبیح الفاظ کے ترک کرنے کی تاکید ہے یا جن میں کسی قسم کی تشویش اور کسی نامناسب امر کا احتمال ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ایسا لفظ استعمال کرنے کا حکم دیا جس میں صرف اچھے معنی کا احتمال ہو۔ فرمایا: ﴿ وَقُ٘وْلُوا انْ٘ظُ٘رْنَا ﴾ ’’اور اُنْظُرْنَا کہو‘‘ یہ لفظ کافی ہے اور بغیر کسی خدشے کے، اس سے اصل مقصد حاصل ہو جاتا ہے ﴿ وَاسْمَعُوْا﴾ ’’اور سنو‘‘ یہاں مَسْمُوعٌ کا ذکر نہیں کیا گیا تاکہ اس کی عمومیت میں ہر وہ چیز شامل ہو جس کے سننے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کے مفہوم میں سماع قرآن اور سماع سنت شامل ہیں جو لفظی، معنوی اور قبولیت کے اعتبار سے سراسر حکمت ہے۔ اس میں ادب اور اطاعت کی تعلیم ہے۔
{105} وأخبر عن عداوة اليهود والمشركين للمؤمنين أنهم ما يودون، {أن ينزل عليكم من خير}؛ أي: لا قليلاً ولا كثيرًا، {من ربكم}؛ حسدًا منهم وبغضاً لكم أن يختصكم بفضله فإنه، {ذو الفضل العظيم} ومن فضله عليكم؛ إنزال الكتاب على رسولكم ليزكيكم ويعلمكم الكتاب والحكمة ويعلمكم ما لم تكونوا تعلمون، فله الحمد والمنة.
[105] پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کو دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے اور یہود اور مشرکین کی مسلمانوں کے ساتھ عداوت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ﴿ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْكُمْ مِّنْ خَیْرٍ ﴾ ’’تم پر کوئی بھلائی نازل ہو۔‘‘ یعنی کم یا زیادہ ﴿ مِّنْ رَّبِّكُمْ﴾ ’’تمھارے رب کی طرف سے‘‘ ان کییہ خواہش تمھارے ساتھ بغض اور اس بات پر حسد کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اپنے فضل کے ساتھ مختص کیوں کیا ﴿ وَاللّٰهُ ذُو الْ٘فَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ ’’بے شک اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ یہ اس کا فضل ہی ہے کہ اس نے تمھارے رسول پر کتاب نازل کی تاکہ وہ تمھیں پاک کرے، تمھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور تمھیں وہ کچھ سکھائے جو تم نہیں جانتے۔ فَلَہُ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔
آیت: 106 - 107
{مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (106) أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (107)}.
جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیتیا بھلوا دیتے ہیں اسے تو لے آتے ہیں ہم بہتر اس سے یا اس کی مثل ہی، کیا نہیں جانا آپ نے کہ بلاشبہ اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے؟ (106) کیا نہیں جانا آپ نے کہ بے شک اللہ، اسی کے لیے ہے بادشاہی آسمانوں اور زمین کی؟ اور نہیں ہے تمھارے لیے سوائے اللہ کے کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار(107)
{106} النسخ هو النقل، فحقيقة النسخ نقل المكلفين من حكم مشروع إلى حكم آخر أو إلى إسقاطه، وكان اليهود ينكرون النسخ ويزعمون أنه لا يجوز، وهو مذكور عندهم في التوراة، فإنكارهم له كفر وهوى محض، فأخبر الله تعالى عن حكمته في النسخ، وأنه ما ينسخ {من آية أو ننسها}؛ أي: ننسها العباد فنزيلها من قلوبهم، {نأت بخير منها}؛ وأنفع لكم، {أو مثلها}؛ فدل على أن النسخ لا يكون لأقل مصلحة لكم من الأول لأن فضله تعالى يزداد خصوصاً على هذه الأمة التي سهل عليها دينها غاية التسهيل، وأخبر أن من قدح في النسخ [فقد] قدح في ملكه وقدرته فقال: {ألم تعلم أن الله على كل شيء قدير}.
[106] (نَسْخ) کے لغوی معنی نقل کرنا ہیں۔ نسخ کی شرعی حقیقتیہ ہے کہ مکلفین کو کسی ایک شرعی حکم سے کسی دوسرے شرعی حکم کی طرف منتقل کرنا یا اس شرعی حکم کو یکسر ساقط قرار دے دینا۔ یہودی نسخ کا انکار کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ نسخ جائز نہیں، حالانکہ نسخ ان کے ہاں تورات میں بھی موجود ہے، ان کا نسخ کو نہ ماننا کفر اور محض خواہش نفس کی پیروی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے نسخ میں پنہاں اپنی حکمت سے آگاہ فرماتے ہوئے فرمایا: ﴿ مَا نَ٘نْ٘سَخْ مِنْ اٰیَةٍ اَوْ نُنْسِهَا﴾ ’’جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیتیا اس کو بھلاتے ہیں‘‘یعنی اپنے بندوں سے فراموش کرا دیتے ہیں اور اس آیت کو ان کے دلوں سے زائل کر دیتے ہیں ﴿نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْهَاۤ ﴾ ’’تو لاتے ہیں اس سے بہتر‘‘ یعنی ایسی آیت اس کی جگہ لے آتے ہیں جو تمھارے لیے زیادہ نفع مند ہوتی ہے ﴿ اَوْ مِثْلِهَا﴾ ’’یا اس جیسی کوئی اور آیت۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمھارے لیے نسخ (یعنی آیت ناسخہ) کی مصلحت پہلی آیت (یعنی آیت منسوخہ) کی مصلحت سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل، خاص طور پر اس امت پر بہت زیادہ ہے جس پر اس کے دین کو اللہ نے بے حد آسان بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی آگاہ فرمایا کہ جو کوئی نسخ میں جرح و قدح کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور قدرت میں عیب نکالتا ہے۔
{107} {ألم تعلم أن الله له ملك السموات والأرض}؛ فإذا كان مالكاً لكم متصرفاً فيكم تصرف المالك البر الرحيم في أقداره وأوامره ونواهيه، فكما أنه لا حجر عليه في تقدير ما يقدره على عباده من أنواع التقادير، كذلك لا يعترض عليه فيما يشرعه لعباده من الأحكام، فالعبد مدبر مسخر تحت أوامر ربه الدينية والقدرية فما له والاعتراض، وهو أيضاً ولي عباده ونصيرهم، فيتولاهم في تحصيل منافعهم، وينصرهم في دفع مضارهم، فمن ولايته لهم، أن يشرع لهم من الأحكام ما تقتضيه حكمته ورحمته بهم. ومن تأمل ما وقع في القرآن والسنة من النسخ، عرف بذلك حكمة الله، ورحمته عباده، وإيصالهم إلى مصالحهم من حيث لا يشعرون بلطفه.
[107] فرمایا: ﴿ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۰۰اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ’’کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے‘‘ جب اللہ تعالیٰ تمھارا مالک ہے وہ تمھارے اندر اسی طرح تصرف کرتا ہے جیسے نیکوکار، مہربان آقا اپنی اقدار میں، اپنے احکام میں اور اپنے نواہی میں تصرف کرتا ہے۔ پس جیسے اس پر اپنے بندوں کی بابت تقدیری فیصلے کرنے پر پابندی نہیں ہے اسی طرح اللہ پر ان احکام کے بارے میں بھی اعتراض صحیح نہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مشروع کیے ہیں۔ پس بندہ اپنے رب کے امر دینی اور امر تکوینی کا پابند ہے، اسے اعتراض کا کیا حق ہے؟۔ نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ولی (کارساز) اور ان کا مددگار ہے۔ پس وہ ان کے لیے منفعت کے حصول میں ان کا والی اور سرپرست ہے۔ اور ضرر کو ان سے دور کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ولایت (کارسازی) کا حصہ ہے کہ اس نے ان کے لیے ایسے احکام مشروع کیے، جن کا تقاضا اس کی حکمت اور لوگوں کے ساتھ اس کی رحمت کرتی ہے۔ جو کوئی اس نسخ میں غور کرتا ہے جو قرآن و سنت میں واقع ہوا ہے تو اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمت ہے اور اس کے بندوں پر رحمت ہے اور اپنے لطف و کرم سے انھیں ان کے مصالح تک ایسے طریقے سے پہنچانا ہے کہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں پاتے۔
آیت: 108 - 110
{أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ (108) وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (109) وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (110)}.
کیا چاہتے ہو تم (اے مسلمانو!) کہ سوال کرو تم اپنے رسول سے، جیسے سوال کیے گئے موسیٰ پہلے اس سے؟ اور جو کوئی تبادلہ کرتا ہے کفر کا ایمان کے عوض، تو تحقیق بھٹک گیا وہ سیدھی راہ سے(108) چاہتے ہیں بہت سے اہل کتاب میں سے، کاش کہ وہ پھیر دیں (بنا دیں) تمھیں بعد تمھارے ایمان کے، کافر حسد کرتے ہوئے اپنے دلوں سے، بعد اس کے کہ واضح ہو گیا ان کے لیے حق، پس معاف کرو اور درگزر کرو، یہاں تک کہ لے آئے اللہ حکم اپنا، بلاشبہ اللہ ہر چیزپر خوب قادر ہے(109) اور تم قائم کرو نماز اور دو زکاۃاور جو کچھ آگے بھیجو گے تم اپنے نفسوں کے لیے کوئی بھلائی تو پاؤ گے تم اس کو اللہ کے ہاں، بے شک اللہ جو تم عمل کرتے ہو، دیکھنے والا ہے(110)
{108} ينهى الله المؤمنين أو اليهود بأن يسألوا رسولهم، {كما سئل موسى من قبل}؛ والمراد بذلك أسئلة التعنت والاعتراض، كما قال تعالى: {يسألك أهل الكتاب أن تنزل عليهم كتاباً من السماء فقد سألوا موسى أكبر من ذلك فقالوا أرنا الله جهرة}؛ وقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم}؛ فهذه ونحوها هي المنهي عنها. وأما سؤال الاسترشاد والتعلم فهذا محمود قد أمر الله به كما قال تعالى: {فاسألوا أهل الذكر إن كنتم لا تعلمون}؛ ويقرهم عليه كما في قوله: {يسألونك عن الخمر والميسر}؛ و {يسألونك عن اليتامى}؛ ونحو ذلك. ولما كانت المسائل المنهي عنها مذمومة قد تصل بصاحبها إلى الكفر قال: {ومن يتبدل الكفر بالإيمان فقد ضل سواء السبيل}.
[108] اللہ تعالیٰ اہل ایمانیایہود کو منع کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول سے اس طرح سوال کریں ﴿ كَمَا سُىِٕلَ مُوْسٰؔى مِنْ قَبْلُ﴾ ’’جس طرح اس سے پہلے حضرت موسیٰuسے سوال کیا گیا۔‘‘ اس سے مراد وہ سوالات ہیں جو بال کی کھال اتارنے اور اعتراض کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یَسْـَٔؔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً﴾ (النساء : 4؍153) ’’اہل کتاب تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے کوئی لکھی ہوئی کتاب اتار لا۔ یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بات کا مطالبہ کر چکے ہیں، کہتے تھے کہ ہمیں اللہ ان ظاہری آنکھوں سے دکھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْیَآءَؔ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ﴾ (المائدہ : 5؍101) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کیا کرو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بری لگیں گی۔‘‘ لہٰذا اس قسم کے (مذموم) سوالات سے منع کیا گیا ہے۔ رہا رشد و ہدایت اور تحصیل علم کے لیے سوال کرنا تو یہ محمود ہے، اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے سوالات کرنے کا حکم دیا ہے چنانچہ فرمایا: ﴿ فَسْـَٔلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل : 16؍43) ’’اگر تم نہیں جانتے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو اہل کتاب ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے سوالات کو برقرار رکھا ہے۔ فرمایا: ﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْ٘خَمْرِ وَالْ٘مَیْسِرِ﴾ (البقرہ : 2؍219) ’’وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿وَیَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْ٘یَتٰمٰى ﴾ (البقرہ : 2؍220) ’’وہ تجھ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں‘‘ اور اس قسم کی دیگر آیات۔ چونکہ ممنوعہ سوالات مذموم ہوتے ہیں اس لیے بعض دفعہ سوال پوچھنے والے کو کفر کی حدود میں داخل کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْ٘كُ٘فْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیْلِ﴾ ’’جس نے ایمان کے بدلے کفر لے لیا پس اس نے سیدھا راستہ گم کر دیا۔‘‘
{109} ثم أخبر عن حسد كثير من أهل الكتاب وأنهم بلغت بهم الحال أنهم ودوا {لو يردونكم من بعد إيمانكم كفاراً}؛ وسعوا في ذلك، وعملوا المكايد، وكيدهم راجع عليهم كما قال تعالى: {وقالت طائفة من أهل الكتاب آمنوا بالذي أنزل على الذين آمنوا وجه النهار واكفروا آخره لعلهم يرجعون}؛ وهذا من حسدهم الصادر من عند أنفسهم، فأمرهم الله بمقابلة من أساء إليهم [غاية الإساءة] بالعفو عنهم والصفح حتى يأتي الله بأمره، ثم بعد ذلك أتى الله بأمره إياهم بالجهاد، فشفى الله أنفس المؤمنين منهم، فقتلوا من قتلوا واسترقوا من استرقوا، وأجلوا من أجلوا، {إن الله على كل شيء قدير}.
[109] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے بہت سے لوگوں کے حسد کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ ان کییہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ چاہتے ہیں ﴿ لَوْ یَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِكُمْ كُفَّارًا﴾ ’’کہ کاش تمھیں تمھارے ایمان کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں۔‘‘ اس کے لیے انھوں نے پوری کوشش اور فریب کاری کے جال بچھائے، مگر ان کے مکر و فریب پلٹ کر انھی پر پڑ گئے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَقَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْ٘فُ٘رُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (آل عمران 3؍72) ’’اہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے وہ کتاب جو اہل ایمان پر نازل کی گئی ہے اس پر دن کے پہلے حصے میں ایمان لاؤ اور اس کے آخر میں انکار کر دو، تاکہ وہ اسلام سے باز آ جائیں۔‘‘ یہ ان کا حسد تھا جو ان کے اندر سے پھوٹ رہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہود کی برائی اور بدخلقی کے مقابلے میں عفو اور درگزر سے کام لینے کا حکم دیایہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جہاد کا حکم دے دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو شفا بخشی۔ چنانچہ اہل ایمان نے ان یہودیوں میں سے جو قتل کےمستحق تھے ان کو قتل کیا، جو قیدی بنائے جا سکے ان کو قیدی بنا لیا اور کچھ کو ملک بدر کر دیا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُ٘لِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾ ’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
{110} ثم أمرهم الله بالاشتغال بالوقت الحاضر بإقامة الصلاة وإيتاء الزكاة وفعل كل القربات، ووعدهم أنهم مهما فعلوا من خير فإنه لا يضيع عند الله بل يجدونه عنده وافراً موفراً قد حفظه {إن الله بما تعملون بصير}.
[110] پھر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فی الحال اقامت نماز، ادائے زکاۃ اور تقرب الٰہی کے کاموں میں مشغول رہنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ نیکی کا جو بھی کام کریں گے اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی ضائع نہیں ہو گا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے بہت زیادہ پائیں گے اللہ تعالیٰ نے اس کو محفوظ کر رکھا ہے۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ﴾ ’’تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا ہے۔‘‘
آیت: 111 - 112
{وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (111) بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (112)}.
اور کہا انھوں نے، ہرگز نہیں داخل ہوں گے جنت میں مگر وہ جو ہوں گے یہودییا عیسائی۔ یہ (باطل) خواہشیں ہیں ان کی، کہہ دیجیے! لاؤ تم دلیل اپنی، اگر ہو تم سچے(111) کیوں نہیں، (ہاں) جس نے جھکا دیا اپنا چہرہ واسطے اللہ کے اور وہ نیکی کرنے والا ہے تو اس کے لیے ہے اجر اس کا نزدیک اس کے رب کےاور نہ کوئی خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہی ہوں گے(112)
{111} أي: قال اليهود: لن يدخل الجنة إلا من كان هوداً، وقالت النصارى: لن يدخل الجنة إلا من كان نصارى، فحكموا لأنفسهم بالجنة وحدهم، وهذا مجرد أماني غير مقبولة إلا بحجة وبرهان فأتوا بها إن كنتم صادقين، وهكذا كل من ادعى دعوى لا بد أن يقيم البرهان على صِحة دعواه، وإلا فلو قلبت عليه دعواه وادعى مدع عكس ما ادعى بلا برهان لكان لا فرق بينهما، فالبرهان هو الذي يصدق الدعاوي أو يكذبها، ولما لم يكن بأيديهم برهان علم كذبهم بتلك الدعوى.
[111] یعنییہودیوں نے کہا کہ یہودیوں کے سوا کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا اور عیسائیوں نے کہا کہ صرف وہی لوگ جنت میں جائیں گے جو عیسائی ہوں گے۔ پس انھوں نے حکم لگا دیا کہ صرف وہی اکیلے جنت کے مستحق ہوں گے۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جو دلیل و برہان کے بغیر قابل قبول نہیں۔ پس اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو دلیل مہیا کرو۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو کسی قسم کا دعویٰ کرتا ہے اس کییہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوے کی صحت پر دلیل مہیا کرے وگرنہ اس کا دعویٰ اس کی طرف پلٹا دیا جائے اور اگر کوئی دعویٰ کرنے والا اس کے برعکس بغیر دلیل کے دعویٰ کر دے، تو وہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ ان دونوں دعوؤں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہو گا۔ پس دلیل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دعوے کی تصدیقیا اس کی تکذیب کرتی ہے اور جب ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹے ہیں۔
{112} ثم ذكر تعالى البرهان الجلي العام لكل أحد فقال: {بلى}؛ أي: ليس بأمانيكم ودعاويكم ولكن، {من أسلم وجهه لله}؛ أي: أخلص لله أعماله متوجهاً إليه بقلبه، {وهو}؛ مع إخلاصه {محسن}؛ في عبادة ربه بأن عبده بشرعه فأولئك هم أهل الجنة وحدهم، فلهم أجرهم عند ربهم؛ وهو الجنة بما اشتملت عليه من النعيم، {ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون}؛ فحصل لهم المرغوب ونجوا من المرهوب، ويفهم منها أن من ليس كذلك فهو من أهل النار الهالكين، فلا نجاة إلا لأهل الإخلاص للمعبود والمتابعة للرسول.
[112] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسی روشن دلیل بیان فرمائی ہے جو ہر ایک کے لیے عام ہے فرمایا: ﴿ بَلٰى ﴾ یعنی تمھاری آرزوئیں اور تمھارے دعوے صحیح نہیں بلکہ ﴿ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ﴾ جس نے اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے اعمال کو اس کے لیے خالص کر لیا۔ ﴿ وَهُوَ مُحْسِنٌ﴾ اور وہ اپنے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی عبادت احسن طریقے سے کرتا ہے۔ یعنی وہ اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عبادت کرتا ہے صرف یہی لوگ جنت میں جائیں گے۔ ﴿ فَلَهٗۤ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ﴾ ’’بے شک اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے‘‘ یہ اجر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر مشتمل جنت ہے ﴿ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ﴾ ’’اور ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘ پس انھیں ان کی مرغوب چیز حاصل ہو گی اور خوف سے نجات مل جائے گی۔ ان آیات کریمہ میںیہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جو ان مذکورہ لوگوں کی مانند نہیں ہیں وہ ہلاک ہونے والے جہنمیوں میں شمار ہوں گے پس نجات صرف انھی لوگوں کا نصیب ہے جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے نیکی کرتے اور رسول اللہeکی پیروی کرتے ہیں۔
آیت: 113
{وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (113)}.
اور کہا یہودیوں نے، نہیں ہیں عیسائی اُوپر کسی چیز کے اور کہا عیسائیوں نے، نہیں ہیںیہودی اُوپر کسی چیز کے، حالانکہ وہ (دونوں) پڑھتے ہیں کتاب، اسی طرح کہا ان لوگوں نے(بھی) جو نہیں علم رکھتے، مثل ان کے قول کے، پس اللہ فیصلہ فرمائے گا درمیان ان کے دن قیامت کے، اس (چیز) میں کہ تھے وہ اس میں اختلاف کرتے(113)
{113} وذلك أنه بلغ بأهل الكتاب الهوى والحسد إلى أن بعضهم ضلل بعضاً، وكفر بعضهم بعضاً كما فعل الأميون من مشركي العرب وغيرهم، فكل فرقة تضلل [الفرقةَ] الأخرى، ويحكم الله في الآخرة بين المختلفين بحكمه العدل الذي أخبر به عباده، فإنه لا فوز ولا نجاة إلا لمن صدَّق جميع الأنبياء والمرسلين، وامتثل أوامر ربه، واجتنب نواهيه، ومن عداهم فهو هالك.
[113] اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل کتاب خواہش نفس اور حسد میں اس حد کو پہنچ گئے کہ انھوں نے ایک دوسرے کو گمراہ اور کافر قرار دیا، جیسے مشرکین عرب میں امیوں کا وتیرہ تھا۔ پس ہر فرقہ دوسرے فرقے کو گمراہ قرار دیتا تھا۔ ان اختلاف کرنے والوں کے مابین قیامت کے روز اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔ یہ وہ فیصلہ ہے جس کے بارے میں اس نے بندوں کو باخبر کر دیا ہے کہ فوز و فلاح اور نجات صرف انھی لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے تمام انبیاء و مرسلین کی تصدیق کی، اور اپنے رب کے احکام کی پیروی کی اور اس کی منہیات سے اجتناب کیا۔ ان کے علاوہ دیگر تمام لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گریں گے۔
آیت: 114
{وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114)}.
اور کون زیادہ ظالم ہے اس سے جس نے منع کیا اللہ کی مسجدوں سے، یہ کہ ذکر کیا جائے ان میں نام اللہ کااور کوشش کی اس نے ان کے اجاڑنے میں،یہ (روکنے والے) نہیں تھا لائق ان کے کہ داخل ہوں ان میں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں عذاب عظیم ہے(114)
{114} أي: لا أحد أظلم وأشد جرماً ممن منع مساجد الله عن ذكر الله فيها وإقامة الصلاة وغيرها من [أنواع] الطاعات، {وسعى}؛ أي: اجتهد وبذل وسعه، {في خرابها}؛ الحسي والمعنوي، فالخراب الحسي هدمها وتخريبها وتقذيرها، والخراب المعنوي منع الذاكرين لاسم الله فيها، وهذا عام لكل من اتصف بهذه الصفة فيدخل في ذلك أصحاب الفيل وقريش حين صدوا رسول الله عنها عام الحديبية، والنصارى حين أخربوا بيت المقدس، وغيرهم من أنواع الظلمة الساعين في خرابها محادّة لله ومشاقة، فجازاهم الله بأن منعهم دخولها شرعاً وقدراً إلا خائفين ذليلين، فلما أخافوا عباد الله أخافهم الله، فالمشركون الذين صدوا رسوله لم يلبث رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلا يسيراً حتى أذن الله له في فتح مكة ومنع المشركين من قربان بيته فقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إنما المشركون نجس فلا يقربوا المسجد الحرام بعد عامهم هذا}؛ وأصحاب الفيل قد ذكر الله ما جرى عليهم، والنصارى سلط الله عليهم المؤمنين فأجلوهم [عنه]، وهكذا كل من اتصف بوصفهم فلا بد أن يناله قسطه، وهذا من الآيات العظيمة أخبر بها الباري قبل وقوعها فوقعت كما أخبر، واستدل العلماء بالآية الكريمة على أنه لا يجوز تمكين الكفار من دخول المساجد {لهم في الدنيا خزي}؛ [أي]: فضيحة؛ كما تقدم {ولهم في الآخرة عذاب عظيم}؛ وإذا كان لا أظلم ممن منع مساجد الله أن يذكر فيها اسمه، فلا أعظم إيماناً ممن سعى في عمارة المساجد بالعمارة الحسية والمعنوية؛ كما قال تعالى: {إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر}؛ بل قد أمر الله تعالى برفع بيوته وتعظيمها وتكريمها فقال تعالى: {في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه}. وللمساجد أحكام كثيرة يرجع حاصلها إلى مضمون هذه الآيات الكريمة.
[114] یعنی اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جس نے اللہ کی مساجد میں لوگوں کو اللہ کا ذکر کرنے، نماز پڑھنے اور نیکی اور اطاعت کے دیگر کاموں سے روکا ﴿ وَسَعٰى ﴾ یعنی جس نے پوری جدوجہد اور بھرپور کوشش کی ﴿ فِیْ خَرَابِهَا﴾ ’’ان کے ویران کرنے میں۔‘‘ اس سے مراد، حسی اور معنوی دونوں اعتبار سے ویران کرنا ہے۔ حسی ویرانی کا مطلب ہے منہدم کرنا، اجاڑنا اور اس میں گندگی وغیرہ پھینکنا۔ معنوی ویرانی کا مطلب ان مساجد میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے روکنا ہے۔ اور یہ عام ہے، اس زمرے میں وہ تمام لوگ آتے ہیں جو ان صفات سے متصف ہیں۔ اس میں اصحاب فیل بھی شامل ہیں۔ قریش بھی شامل ہیں، جب انھوں نے حدیبیہ کے سال رسول اللہeکو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اور اس گروہ میں وہ نصرانی اور اہل ظلم بھی شامل ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہوئے پوری کوشش سے بیت المقدس کو ویران کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے کرتوتوں کییہ سزا دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شرعاً اور تقدیری طور پر مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے منع کر دیا سوائے اس کے کہ وہ ڈرتے ہوئے ذلت و انکسار کے ساتھ داخل ہوں۔ پس جب انھوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوف زدہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر خوف مسلط کر دیا۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہeکو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہeکو مکہ مکرمہ فتح کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی اور مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْ٘مُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰؔذَا﴾ (التوبہ : 9؍28) ’’اے ایمان والو! مشرکین تو ناپاک ہیں اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ جائیں۔‘‘ اصحاب فیل کا جو حشر ہوا اللہ تعالیٰ نے (قرآن مجید میں) اس کا ذکر فرمایا ہے۔ نصرانیوں پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مسلط فرمایا اور انھوں نے ان کو جلاوطن کر دیا۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو ان جیسی صفات رکھتا ہے وہ اس سزا سے اپنا حصہ ضرور وصول کرے گا۔ یہ بہت بڑی نشانیاں ہیں جن کے واقع ہونے سے پہلے ہی باری تعالیٰ نے آگاہ فرما دیا اور یہ اسی طرح واقع ہوئیں جس طرح اس نے خبر دی تھی۔ اس آیت کریمہ سے اہل علم نے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ فرمایا: ﴿ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ ﴾ یعنی ان کے لیے دنیا میں فضیحت ہے ﴿ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ ’’اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ جب اللہ کی مساجد میں اللہ کے ذکر سے روکنا سب سے بڑا ظلم ہے تو اسی طرح مساجد کو حسی اور معنوی اعتبار سے آباد کرنے والے سے بڑا ایمان والا کوئی نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ (التوبہ : 9؍18) ’’اللہ کی مساجد کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔‘‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے گھروں کو بلند کیا جائے اور ان کی تعظیم و تکریم کی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَ٘عَ وَیُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ﴾ (النور:24؍36) ’’ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور وہاں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔‘‘ مساجد سے متعلق بہت سے احکام ہیں جن کا خلاصہ ان آیات کریمہ کے اندر مضمر ہے۔
آیت: 115
{وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (115)}.
اور اللہ کے لیے ہیں مشرق و مغرب، پس جس طرف بھی تم منہ کرو گے تو وہاں ہی ہے چہرہ اللہ کا، بلاشبہ اللہ وسعت والا، خوب جاننے والا ہے(115)
{115} أي: {ولله المشرق والمغرب}؛ خصهما بالذكر لأنهما محل الآيات العظيمة [فهما] مطالع الأنوار ومغاربها، فإذا كان مالكاً لها كان مالكاً لكل الجهات {فأينما تولوا}؛ وجوهكم من الجهات إذا كان توليكم إياها بأمره، إما أن يأمركم باستقبال الكعبة بعد أن كنتم مأمورين باستقبال بيت المقدس، أو تؤمرون بالصلاة في السفر على الراحلة ونحوها، فإن القبلة حيثما توجه العبد، أو تشتبه القبلة فيتحرى الصلاة إليها، ثم يتبين له الخطأ أو يكون معذوراً بصلب أو مرض ونحو ذلك، فهذه الأمور إما أن يكون العبد فيها معذوراً أو مأموراً. وبكل حال فما استقبل جهة من الجهات خارجة عن ملك ربه {فثم وجه الله إن الله واسع عليم}؛ فيه إثبات الوجه لله تعالى على الوجه اللائق به تعالى، وإن لله وجهاً لا تشبهه الوجوه، وهو تعالى واسع الفضل والصفات عظيمها عليم بسرائركم ونياتكم، فمن سعته وعلمه، وسع لكم الأمر، وقبل منكم المأمور، فله الحمد والشكر.
[115] ﴿ وَلِلّٰهِ الْ٘مَشْرِقُ وَالْ٘مَغْرِبُ﴾ ’’اللہ ہی کے لیے ہے مشرق اور مغرب‘‘ اللہ تعالیٰ نے یہاں مشرق و مغرب کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہیہ روشنی کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی آیات عظیمہ کا محل و مقام ہیں اور جب وہ مشارق و مغارب کا مالک ہے، تو تمام جہات اسی کی ملکیت ہیں۔ ﴿ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا﴾ پس ان جہات میں سے جس کسی جہت کی طرف بھی تم اپنا منہ پھیر لو گے، بشرطیکہ تمھارا اس کی طرف منہ پھیرنا اللہ کے حکم سے ہو۔ یا تو وہ تمھیں حکم دے کہ خانہ کعبہ کی طرف بھی تم منہ پھیر لو، جبکہ پہلے تم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے پابند تھے یا سفر میں تمھیں سواری کے اوپر نماز پڑھنے کا حکم دیا جائے، اس صورت میں اس کا قبلہ وہی ہو گا جس کی طرف وہ منہ کرے گا یا (انجان جگہ میں) قبلے کا رخ معلوم نہ ہو، پس اپنے اندازے سے نماز پڑھ لی، بعد میں معلوم ہوا کہ اندازہ غلط تھا یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے قبلہ رخ ہونا مشکل ہو۔ ان تمام صورتوں میں وہ یا تو مامور ہے (یعنی اللہ کے حکم پر قبلے کی طرف رخ کرنے والا ہے) یا معذور ہے۔ ہر حال میں بندہ جس جہت کی طرف بھی منہ کرتا ہے وہ جہت اللہ تعالیٰ کی ملکیت سے باہر نہیں۔ ﴿ فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ ’’جدھر بھی تم رخ کرو ادھر ہی اللہ کا چہرہ ہے بے شک اللہ وسعت والا علم والا ہے‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات ہوتا ہے مگر جیسے اس کی ذات اقدس کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰکا چہرہ ہے مگر مخلوق کے چہروں کے مشابہ نہیں۔ (اللہ تعالیٰ اس مشابہت سے بلند و برتر ہے) وہ وسیع فضل اور عظیم صفات کا مالک ہے اور تمھارے سینوں کے بھید اور نیتوں کو جاننے والا ہے۔ اس نے وسعت فضل و علم کی بنا پر تمھارے لیے احکام میں وسعت بخشی ہے اور تم سے مامورات کو قبول فرمایا۔ ہر قسم کی حمد و ثنا اور شکر صرف اسی کی ذات کے لیے ہے۔
آیت: 116 - 117
{وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ (116) بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (117)}.
اور کہا انھوں نے، بنا لی ہے اللہ نے اولاد، پاک ہے وہ (اس سے)بلکہ اسی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اسی کے لیے عاجزی کرنے والے ہیں(116) وہ انوکھا موجد ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب وہ فیصلہ کرتا ہے کسی کام کا، تو صرف یہی کہتا ہے اس کو ہو جا تو پس وہ ہو جاتاہے(117)
{116} {وقالوا}؛ أي: اليهود والنصارى والمشركون وكل من قال ذلك، {اتخذ الله ولداً}؛ فنسبوه إلى ما لا يليق بجلاله وأساءوا كل الإساءة وظلموا أنفسهم وهو تعالى صابر على ذلك منهم، قد حلم عليهم، وعافاهم، ورزقهم مع تنقصهم إياه {سبحانه}؛ أي: تنزه وتقدس عن كل ما وصفه به المشركون والظالمون مما لا يليق بجلاله، فسبحان من له الكمال المطلق من جميع الوجوه الذي لا يعتريه نقصٌ بوجه من الوجوه، ومع رده لقولهم أقام الحجة والبرهان على تنزيهه عن ذلك فقال: {بل له ما في السموات والأرض}؛ أي: جميعهم ملكه وعبيده يتصرف فيهم تصرف المالك بالمماليك وهم قانتون له مسخرون تحت تدبيره، فإذا كانوا كلهم عبيده مفتقرين إليه، وهو غني عنهم فكيف يكون منهم أحد يكون له ولداً، والولد لا بد أن يكون من جنس والده لأنه جزء منه، والله تعالى المالك القاهر وأنتم المملوكون المقهورون وهو الغني وأنتم الفقراء، فكيف مع هذا يكون له ولد؟ هذا من أبطل الباطل وأسمجه. والقنوت نوعان: قنوت عام وهو قنوت الخلق كلهم تحت تدبير الخالق، وخاص وهو قنوت العبادة. فالنوع الأول كما في هذه الآية، والنوع الثاني كما في قوله تعالى: {وقوموا لله قانتين}. ثم قال:
[116] ﴿ وَقَالُوا﴾ یعنییہود و نصاریٰ، مشرکین اور ان تمام لوگوں نے کہا جو کہتے ہیں ﴿ اتَّؔخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا﴾ ’’اللہ نے بیٹا بنا لیا۔‘‘ انھوں نے ایسی بات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کی جو اس کی جلالت شان کے لائق نہ تھی۔ انھوں نے بہت برا کیا اور اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس گستاخی پر صبر کرتا ہے، حلم سے کام لیتا ہے، انھیں معاف کر کے انھیں رزق عطا کرتا ہے۔ اس کے باوجود کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں نقص ثابت کرتے ہیں ﴿ سُبْحٰؔنَهٗ﴾یعنی وہ ان تمام صفات سے پاک اور منزہ ہے جن سے یہ اہل شرک اور اہل ظلم اسے متصف کرتے ہیں اور جو اس کے جلال کے لائق نہیں۔۔۔۔۔ پس پاک اور ہر عیب سے منزہ ہے وہ ذات جو ہر پہلو سے کمال مطلق کی مالک ہے جسے کسی بھی پہلو سے نقص لاحق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اپنے منزہ ہونے پر دلیل قائم کی ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت اور اس کی غلام ہے۔ وہ ان میں اسی طرح تصرف کرتا ہے جس طرح مالک اپنے مملوک میں تصرف کرتا ہے۔ وہ اس کے اطاعت گزار اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہیں۔ جب تمام مخلوق اس کی غلام اور اس کی محتاج ہے اور وہ خود ان سے بے نیاز ہے تو ان میں کوئی کیسے اس کا بیٹا ہو سکتاہے۔ بیٹا لازمی طور پر اپنے باپ کی جنس سے ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے جسم کا حصہ ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ مالک اور غالب ہے۔ تم سب لوگ مملوک اور مغلوب ہو، اس کی ہستی بے نیاز اور تم محتاج محض، ایسا ہونے کے باوجود اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ سب سے بڑا باطل اور سب سے زیادہ قبیح بات ہے۔ ’’قُنُوت‘‘ (اطاعت کرنا) کی دو اقسام ہیں۔ (۱) قنوت عام: یعنی تمام مخلوق خالق کے دست تدبیر کے تحت اس کی اطاعت گزار ہے۔ (۲) قنوت خاص: اس سے مراد اطاعت عبودیت ہے۔ پس قنوت کی پہلی قسم وہ ہے جس کا ذکر اس آیتکریمہ میں کیا گیا ہے۔ اور قنوت کی دوسری قسم وہ ہے جس کا ذکر ﴿وَقُ٘وْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ﴾ (البقرہ : 2؍238) ’’اور اللہ کے سامنے ادب اور اطاعت گزاری کے ساتھ کھڑے رہیں۔‘‘ میں مذکور ہے۔
{117} {بديع السموات والأرض}؛ أي: خالقهما على وجه قد أتقنهما وأحسنهما على غير مثال سبق، {وإذا قضى أمراً فإنما يقول له كن فيكون}؛ فلا يستعصي عليه ولا يمتنع منه.
[117] پھر فرمایا: ﴿ بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی سابقہ مثال کے نہایت مضبوط اور بہترین طریقے سے تخلیق کیا ہے۔ ﴿وَاِذَا قَ٘ضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُ٘نْ فَیَكُ٘وْنُ﴾ ’’وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا بس وہ ہو جاتا ہے‘‘ یعنی کوئی چیز اس کی نافرمانی نہیں کر سکتی اور کسی چیز کو اس کے سامنے انکار کرنے کی مجال نہیں۔
آیت: 118 - 119
{وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ (118) إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (119)}.
اور کہا ان لوگوں نے جو نہیں علم رکھتے کیوں نہیں کلام کرتا ہم سے اللہ یا (کیوں نہیں) آتی ہمارے پاس کوئی نشانی؟ اسی طرح کہا ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، مثل ان کے قول کے، ایک جیسے ہو گئے دل ان کے، تحقیق بیان کر دیں ہم نے نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں(118) بلاشبہ بھیجا ہم نے آپ کو ساتھ حق کے، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور نہیں سوال کیے جائیں گے آپ دوزخیوں کی بابت (119)
{118} أي: قال الجهلة من أهل الكتاب وغيرهم هلا يكلمنا الله كما كلم الرسل، {أو تأتينا آية}؛ يعنون آيات الاقتراح التي يقترحونها بعقولهم الفاسدة وآرائهم الكاسدة التي تجرؤوا بها على الخالق واستكبروا على رسله كقولهم: {لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة}؛ {يسألك أهل الكتاب أن تنزل عليهم كتاباً من السماء فقد سألوا موسى أكبر من ذلك ... }؛ الآية. {وقالوا مالِ هذا الرسول يأكل الطعام ويمشي في الأسواق لولا أنزل إليه ملك فيكون معه نذيراً أو يلقى إليه كنز أو تكون له جنة يأكل منها ... }؛ الآيات، وقوله: {وقالوا لن نؤمن لك حتى تفجر لنا من الأرض ينبوعاً ... }؛ الآيات. فهذا دأبهم مع رسلهم يطلبون آيات التعنت لا آيات الاسترشاد، ولم يكن قصدهم تبيين الحق فإن الرسل قد جاؤوا من الآيات بما يؤمن على مثله البشر، ولهذا قال تعالى: {قد بينا الآيات لقوم يوقنون}؛ فكل موقن فقد عرف من آيات الله الباهرة وبراهينه الظاهرة ما حصل له به اليقين، واندفع عنه كل شك وريب.
[118] یعنی اہل کتاب وغیرہ میں سے جہلاء نے کہا۔ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ اس طرح کلام کیوں نہیں کرتا جس طرح وہ اپنے رسولوں سے کلام کرتا ہے۔ ﴿ اَوْ تَاْتِیْنَاۤ اٰیَةٌ﴾ ’’یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی‘‘ اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو وہ اپنی فاسد عقلوں اور باطل آراء کے ذریعے سے طلب کرتے تھے۔ ان فاسد آراء کے بل بوتے پر انھوں نے خالق کے مقابلے میں جسارت کی اور اس کے رسولوں کے سامنے تکبر سے کام لیا۔ جیسے انھوں نے کہا: ﴿ لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ﴾ (البقرہ : 2؍55) ’’ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک ہم اللہ کو ان ظاہری آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔‘‘ ﴿ یَسْـَٔؔلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ﴾ (النساء : 4؍153) ’’اہل کتاب تجھ سے کہتے ہیں کہ تو ان پر آسمان سے ایک لکھی ہوئی کتاب اتار لا۔ پس یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑے بڑے سوال کیا کرتے تھے۔‘‘ ﴿ لَوْلَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مَلَكٌ فَیَكُ٘وْنَ مَعَهٗ نَذِیْرًاۙ۰۰اَوْ یُلْ٘قٰۤى اِلَیْهِ كَنْ٘زٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ یَّ٘اْكُ٘لُ مِنْهَا﴾ (الفرقان : 25؍7، 8) ’’اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ نازل کیا گیا جو ڈرانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ رہتا یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا۔ یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا‘‘ یا جیسے فرمایا: ﴿ وَقَالُوْا لَ٘نْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبـُوْعًا﴾ (بنی اسرائیل : 17؍90) ’’اور انھوں نے کہا ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ جاری نہ کر دے۔‘‘ پس اپنے رسولوں کے ساتھ یہ ان کی عادت رہی ہے کہ یہ طلب رشد و ہدایت کے لیے آیات کا مطالبہ نہیں کیا کرتے تھے اور نہ تبیین حق ان کا مقصد تھا بلکہ وہ تو محض بال کی کھال اتارنے کے لیے مطالبات کرتے تھے۔ کیونکہ رسول تو آیات (اور معجزات) کے ساتھ آتے رہے ہیں اور ان جیسی آیات و معجزات پر انسان ایمان لاتا رہا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَؔ﴾ ’’بے شک ہم نے بیان کر دیں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو یقین کرتے ہیں۔‘‘ پس ہر صاحب ایقان اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں اور واضح دلائل و براہین کو پہچان لیتا ہے۔ ان سے اسے یقین حاصل ہوتا ہے اور شک و ریب اس سے دور ہوجاتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے نہایت اختصار و ایجاز سے بعض جامع آیات کا ذکر فرمایا ہے جو رسول اللہeکی صداقت، اور جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس کی صحت پر دلالت کرتی ہیں۔
{119} {إنا أرسلناك بالحق بشيراً ونذيراً}؛ فهذا مشتمل على الآيات التي جاء بها، وهي ترجع إلى ثلاثة أمور: الأول في نفس إرساله، والثاني في سيرته وهديه ودِلِّه، والثالث في معرفة ما جاء به من القرآن والسنة. فالأول والثاني قد دخلا في قوله: {إنا أرسلناك}؛ والثالث [دخل] في قوله: {بالحق}. وبيان الأمر الأول: وهو ـ نفس إرساله ـ أنه قد علم حالة أهل الأرض قبل بعثته - صلى الله عليه وسلم - وما كانوا عليه من عبادة الأوثان والنيران والصلبان وتبديلهم للأديان حتى كانوا في ظلمة من الكفر قد عمتهم وشملتهم، إلا بقايا من أهل الكتاب قد انقرضوا قبيل البعثة، وقد علم أن الله تعالى لم يخلق خلقه سدى ولم يتركهم هملاً، لأنه حكيم عليم قدير رحيم، فمن حكمته ورحمته بعباده أن أرسل إليهم هذا الرسول العظيم يأمرهم بعبادة الرحمن وحده لا شريك له، فبمجرد رسالته يعرف العاقل صدقه، وهو آية كبيرة على أنه رسول الله. وأما الثاني فمن عرف النبي - صلى الله عليه وسلم - معرفة تامة، وعرف سيرته وهديه قبل البعثة ونشوءه على أكمل الخصال، ثم من بعد ذلك قد ازدادت مكارمه وأخلاقه العظيمة الباهرة للناظرين، فمن عرفها وسبر أحواله عرف أنها لا تكون إلا أخلاق الأنبياء الكاملين؛ لأنه تعالى جعل الأوصاف أكبر دليل على معرفة أصحابها وصدقهم وكذبهم. وأما الثالث: فهو معرفة ما جاء به - صلى الله عليه وسلم - من الشرع العظيم والقرآن الكريم المشتمل على الإخبارات الصادقة والأوامر الحسنة والنهي عن كل قبيح، والمعجزات الباهرة، فجميع الآيات تدخل في هذه الثلاثة. قوله: {بشيراً}؛ أي: لمن أطاعك بالسعادة الدنيوية والأخروية، {نذيراً}؛ لمن عصاك بالشقاوة والهلاك الدنيوي والأخروي، {ولا تسأل عن أصحاب الجحيم}؛ أي: لست مسؤولاً عنهم، إنما عليك البلاغ وعلينا الحساب.
[119] فرمایا: ﴿ اِنَّـاۤ٘اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا﴾ ’’ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ یہ ان آیات پر مشتمل ہے جنھیں رسول اللہeلے کر مبعوث ہوئے اور یہ تین امور کی طرف راجع ہیں۔ (۱)رسول اللہeکی رسالت۔ (۲) آپ کی سیرت طیبہ، آپ کا طریقہ اور آپ کی راہ نمائی۔ (۳) قرآن و سنت کی معرفت۔ پہلا اور دوسرا نکتہ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اِنَّـاۤ٘اَرْسَلْنٰكَ ﴾ میں داخل ہے اور تیسرا نکتہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ بِالْحَقِّ ﴾ میں داخل ہے۔ نکتہ اول۔۔۔ یعنی رسول اللہeکی بعثت اور رسالت کی توضیحیہ ہے کہ رسول اللہeکی بعثت سے قبل اہل زمین کی جو حالت تھی وہ معلوم ہے۔ اس زمین کے رہنے والے بتوں، آگ اور صلیب کی عبادت میں مبتلا تھے۔ ان کے لیے جو دین آیا انھوں نے اسے تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ کفر کی تاریکیوں میں ڈوب گئے اور کفر کی تاریکی ان پر چھا گئی تھی۔ البتہ اہل کتاب کی کچھ باقیات تھیں (جو دین اسلام پر قائم رہیں) اور وہ بھی رسول اللہeکی بعثت سے تھوڑا سا پہلے ناپید ہو گئیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو عبث اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا اور نہ اس کو بے حساب و کتاب آزاد چھوڑا ہے، کیونکہ وہ حکیم و دانا، باخبر، صاحب قدرت اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ پس اس کی حکمت اور اپنے بندوں پر اس کی بے پایاں رحمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ان کی طرف ایک نہایت عظمت والا رسول مبعوث کرے جو انھیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ایک عقلمند شخص محض آپ کی رسالت ہی کی بنا پر آپ کی صداقت کو پہچان لیتا ہے اور یہ اس بات کی بہت بڑی علامت ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ رہا دوسرا نکتہ... تو جس نے رسول اللہeکو اچھی طرح پہچان لیا اور اسے آپ کی بعثت سے قبل آپ کی سیرت اور آپ کے طریق زندگی اور آپ کی کامل ترین خصلتوں پر آپ کی نشوونما کی معرفت حاصل ہو گئی۔ پھر بعثت کے بعد آپ کے مکارم ، عظیم اور روشن اخلاق بڑھتے چلے گئے۔ پس جنھیں ان اخلاق کی معرفت حاصل ہو گئی اور انھوں نے آپ کے احوال کو اچھی طرح جانچ لیا تو اسے معلوم ہو گیا کہ ایسے اخلاق صرف انبیائے کاملین ہی کے ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اوصاف کو اصحاب اوصاف اور ان کے صدق و کذب کی معرفت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرار دیا ہے۔ رہا تیسرا نکتہ۔۔۔ تو یہ اس عظیم شریعت اور قرآن کریم کی معرفت ہے جسے رسول اللہeپر نازل کیا گیا جو سچی خبروں، اچھے احکام، ہر برائی سے ممانعت اور روشن معجزات پر مشتمل ہے۔ پس تمام نشانیاں ان تین باتوں میں آ جاتی ہیں۔ ﴿ بَشِیْرًا ﴾ یعنی آپ اس شخص کو دنیاوی اور اخروی سعادت کی خوشخبری سنانے والے ہیں جس نے آپ کی اطاعت کی ﴿ وَّنَذِیْرًا﴾ اور اس شخص کو دنیاوی اور اخروی بدبختی اور ہلاکت سے ڈرانے والے ہیں جس نے آپ کی نافرمانی کی ﴿ وَّلَا تُ٘سْـَٔلُ عَنْ اَصْحٰؔبِ الْجَحِیْمِ ﴾ یعنی آپ سے اہل دوزخ کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔
آیت: 120
{وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ (120)}.
اور ہرگزنہیں راضی ہوں گے آپ سے یہودی اور نہ عیسائی، حتی کہ پیروی کریں آپ ان کی ملت کی، کہہ دیجیے! بلاشبہ اللہ کی ہدایت وہی (حقیقی) ہدایت ہے اور اگر پیروی کی آپ نے ان کی خواہشات کی، بعد اس کے جو آگیا آپ کے پاس علم تو نہیں ہوگا آپ کے لیے اللہ سے (بچانے والا) کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار(120)
{120} يخبر تعالى رسوله أنه لا يرضى منه اليهود ولا النصارى إلا باتباعه دينهم؛ لأنهم دعاة إلى الدين الذي هم عليه يزعمون أنه الهدى، فقل لهم: {إن هدى الله}؛ الذي أرسلت به {هو الهدى}؛ وأما ما أنتم عليه فهو الهوى بدليل قوله: {ولئن اتبعت أهواءهم بعد الذي جاءك من العلم ما لك من الله من ولي ولا نصير}؛ فهذا فيه النهي العظيم عن اتباع أهواء اليهود والنصارى والتشبه بهم بما يختص به دينهم. والخطاب وإن كان لرسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فإن أمته داخلة في ذلك؛ لأن الاعتبار بعموم المعنى لا بخصوص المخاطب، كما أن العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب.
[120] اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے دین کی اتباع نہ کریں کیونکہ وہ اپنے اس دین کے داعی ہیں جس پر وہ عمل پیرا ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی ہدایت ہے۔ لہٰذا آپ ان سے کہہ دیجیے ﴿ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ ﴾ ’’بے شک اللہ کی ہدایت‘‘یعنی وہ ہدایت جس کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا گیا ہے ﴿ هُوَ الْهُدٰؔى ﴾وہی درحقیقت ہدایت ہے۔ اور وہ مذہب جس پر تم گامزن ہو محض خواہشات نفس کی پیروی ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ١ۙ مَا لَكَ مِنَ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِیْرٍؔ ﴾ ’’اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، اس علم کے بعد جو آپ کو پہنچا، تو آپ کو اللہ سے بچانے والا کوئی حمایتی اور مددگار نہیں ہو گا۔‘‘ اس آیتکریمہ میںیہود و نصاریٰ کی اتباع کرنے اور ان امور میں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے جو ان کے دین سے مختص ہیں۔ یہاں خطاب اگرچہ رسول اللہeسے ہے مگر بالواسطہ آپ کی امت بھی اس میں داخل ہے۔ کیونکہ اصول یہ ہے کہ جس سے خاص طور پر خطاب ہو، اس کی بجائے عموم معنی کا اعتبار کیا جائے۔ جیسے کسی حکم کے نازل ہونے کا کوئی خاص سبب ہوتا ہے، لیکن وہاں اس سبب کی بجائے عموم لفظ کا اعتبار کیا جاتا ہے۔
آیت: 121 - 123
{الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (121) يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ (122) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (123)}.
وہ لوگ کہ دی ہم نے ان کو کتاب، پڑھتے ہیں وہ اسے جس طرح حق ہے اس کے پڑھنے کا، وہی لوگ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس کے اور جو کوئی کفر کرتا ہے ساتھ اس کے تو وہی ہیں خسارہ پانے والے(121) اے بنواسرائیل! یاد کرو تم میری نعمت، وہ جو انعام کی میں نے تم پر اور یہ کہ فضیلت دی میں نے تمھیں اوپر تمام جہانوں کے(122) اور ڈرو اس دن سے کہ نہیں کام آئے گا کوئی نفس کسی نفس کے کچھ بھی اور نہ قبول کیا جائے گا اس سے کوئی بدلہ اور نہ نفع دے گی اس کو کوئی سفارش اور نہ وہ مدد ہی کیے جائیں گے(123)
{121} يخبر تعالى أن الذين آتاهم الكتاب ومنَّ عليهم به منِّة مطلقة أنهم {يتلونه حق تلاوته}؛ أي: يتبعونه حق اتباعه، والتلاوة الاتِّباع، فيحلون حلاله، ويحرمون حرامه، ويعملون بمحكمه، ويؤمنون بمتشابهه، وهؤلاء هم السعداء من أهل الكتاب الذين عرفوا نعمة الله وشكروها، وآمنوا بكل الرسل ولم يفرقوا بين أحد منهم، فهؤلاء هم المؤمنون حقًّا لا من قال منهم نؤمن بما أنزل علينا ويكفرون بما وراءه، ولهذا توعدهم بقوله: {ومن يكفر به فأولئك هم الخاسرون}.
[121] اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب عطا کی اور کتاب عطا کر کے ان پر احسان کیا ہے ﴿ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ﴾ ’’وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔‘‘ یعنی اس کی اتباع کرتے ہیں جیسا کہ اتباع کرنے کا حق ہے۔ یہاں (تلاوت) سے مراد اتباع ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کے حلال ٹھہرائے ہوئے امور کو حلال اور اس کے حرام ٹھہرائے ہوئے امور کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس کی محکمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس کی متشابہات پر ایمان لاتے ہیں۔ اہل کتاب میں سے یہی وہ لوگ ہیں جو خوش بخت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانا اور اس کے شکر گزار ہوئے جو تمام رسولوں پر ایمان لائے اور انھوں نے ان رسولوں کے مابین تفریق نہ کی۔ یہی لوگ حقیقی مومن ہیں نہ کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں ﴿ نُؤْمِنُ بِمَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِمَا وَرَآءَهٗ ﴾ (البقرۃ : 2؍91) ’’جو کتاب ہم پر نازل کی گئی ہم تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری کتابوں کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَمَنْ یَّكْ٘فُ٘رْ بِهٖ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْ٘خٰؔسِرُوْنَ﴾ ’’جو کوئی اس کا انکار کرے گا پس یہی لوگ گھاٹے میں پڑنے والے ہیں۔‘‘
{122 ـ 123} وقد تقدم تفسير الآية التي بعدها.
[123-122] اس کے بعد آنے والی آیت کریمہ کی تفسیر گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے۔
=== Add Paragraph 2 ===
=== Add Heading 2 ===


=== Add Paragraph 3 ===
=== Add Paragraph 4 ===
=== Add Paragraph 5 ===
Share:

Aa
Lorem

aa
Lorem

aa
Lorem
Comments
Leave A Comment
Popular Categories -311
Stay Connected -357
Popular Articles -390

Aqeedah
Get the best news. December 9, 2024
Fiqh
Get the best news. December 9, 2024
Seerah
Get the best news. December 9, 2024
Arabic Language
Get the best news. December 9, 2024